Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

سپیکر ملک احمد خان کے چیلنجز

Published

on

پنجاب اسمبلی کے 103 سال مکمل ہونے پر ملک محمد احمد خان پنجاب اسمبلی کے 31 ویں سپیکر منتخب ہوگئے۔ ملک احمد خان کا شمار نئی نسل کے ان باصلاحیت اور پڑھے لکھے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا فیملی بیک گراؤنڈ بھی قومی سطح پر سیاست سے جڑا رہا۔ قصور سے تعلق رکھنے والے ملک محمد احمد خان کے والد ملک محمد علی خاں بھی پنجاب اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے جبکہ 1986 سے 1988 تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی رہے۔

پنجاب اسمبلی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کا شمار پاکستان کے قدیم ترین قانون ساز اداروں میں ہوتا ہے۔ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط اس کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے۔ کئی تلخ اور شیریں واقعات ،یادیں اس سے وابستہ ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز سرکار کے نمائندے اس کے سپیکر رہے جبکہ بعدازاں نامور ہندو اور سکھ سیاسی شخصیات بھی پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر متمکن رہیں۔

ملک محمد احمد خان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002 کے عام انتخابات میں اس وقت کی کنگز پارٹی قاف لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا لیکن 2008 کے بعد سیاست سے چار سال کا وقفہ ختم کرکے وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہوگئے۔ 2013 کی اسمبلی میں نون لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ اسمبلی میں ہمیشہ انتہائی پڑھے لکھے انداز میں ایک مستند قانون ساز کی طرح اپنا کردار ادا کیا لیکن پارٹی کی حکومت میں کوئی جگہ نہ بنا پائے۔ نوازشریف کی 2014 میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ “پانی پت کی تیسری لڑائی” چھڑی تو اس کشیدہ ماحول میں اپنے اعتدال پسند نقطہ نظر کی وجہ سے ملک محمد احمد خاں کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بہت پسند کیا جانے لگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اسی تعلق کو نون لیگ نے  اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کا ایک ذریعہ بنایا۔ ان کی میاں نوازشریف اور جنرل قمرجاویدباجوہ کے درمیان کامیاب شٹل ڈپلومیسی سے فریقین میں برف پگھلی جس کے نتیجے میں زیرعتاب مسلم لیگ نون کی سیاست کے دن پھر گئے۔ جنرل قمرجاویدباجوہ  ملک محمد احمد خاں کو اس حد تک اہمیت دیتے تھے کہ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب میں نون لیگی حکومت کے لئے بطور وزیر اعلیٰ ملک محمد احمد خاں ان کے فیورٹ تھے لیکن غالبا یہ حمایت انہیں راس نہ آئی اور نون لیگ نے انہیں وزیراعلی نہ بنایا۔ تاہم اب مسلسل دس سال تک پارٹی کے لئے انتھک خدمات کے صلے میں بالآخر انہیں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اہم عہدے فائز کیا گیا ہے۔

ملک محمد احمد خان انتہائی غیرمعمولی حالات میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔ بطور کسٹوڈین آف دی ہاؤس ایک تو سکڑتی ہوئی سویلین بالادستی کو ایوان کی حد تک اس کا اصل مقام دلانا۔ دوسرے بپھری ہوئی اپوزیشن کو رام کرنا۔ پنجاب اسمبلی میں اس کے اسپیکرز اور وزراء اعلی کے حوالے سے بڑی تلخ یادیں ایوان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سب کو یاد ہے جب 22 فروری 1985 کو نوازشریف کی وزارتِ اعلی کے دوران جنرل ضیاءالحق نے بطور صدر پاکستان پنجاب اسمبلی سے خطاب کیا تو اسپیکر میاں منظور وٹو اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے ایک رکن فضل حسین راہی نے اس پر احتجاج کیا تو اسپیکر نے اُنہیں سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ایوان سے باہر نکال دیا۔

پھر دوسری بار 2007 میں اس وقت کے وزیراعلی چوہدری پرویز الٰہی نے باوردی جرنیل پرویز مشرف کو نہ صرف دوسری ٹرم کے لئے ملک کا صدر منتخب کروایا بلکہ کہا کہ اگر ان کے بس میں ہوا تو جنرل پرویز مشرف کو سوبار وردی میں صدر منتخب کروائیں گے اور پھر سب نے دیکھا کہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے والے نوازشریف راندہ درگاہ ہوئے تو اب ہمیشہ کے بلیو آئیڈ پرویز الٰہی بڑھاپے کے دن اڈیالہ میں گذار رہے ہیں۔ نومنتخب اسپیکر  ملک محمد احمد خاں کے لئے اس میں ایک سبق ہے کہ وہ اعتدال پسندی برقرار رکھیں۔

دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں عمومی جبکہ پنجاب میں سیاسی پولرائزیشن عروج پر ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں مسلم لیگ نون کے لئے ایوان کے اندر اور باہر ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے۔ تحریک انصاف نون لیگ کو پنجاب اسمبلی میں بھی ٹف ٹائم دے گی۔ حکومت اور اپوزیشن میں تعلقات سیاسی اختلاف سے بڑھ کر عداوت اور دشمنی میں بدل رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی کارروائی کا آغاز بھی انتہائی کشیدہ ماحول میں ہوا ہے۔ایسے میں ہمیشہ آئین، قانون اور دلیل سے بات کرنے والے ملک احمد خان کے لئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی ذمہ داری ان کی صلاحیتوں کے لئے ایک امتحان سے کم نہیں۔ ملک احمد خاں نے ماضی میں فائر فائٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں پل کا کردار کامیابی سے ادا کیا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ مائل بہ تصادم اپوزیشن کو قائل کرکے سیاسی دھارے میں کس طرح واپس لاتے ہیں تاکہ ایوان میں قانون سازی کا وہ عمل آگے بڑھے جس کے لئے 8 فروری کو عوام نے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجا ہے۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
2 Comments

2 Comments

  1. ghulam haider

    فروری 25, 2024 at 4:57 شام

    ملک احمد خان کے والد کے بارے میں اپ کی تحریر سے میری علم اضافہ ہوا ۔دوسرا ایک نتیجہ خیز تحریر تھی سقم سے پاک ایک اچھی کاوش۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین