Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ:فل کورٹ بنائیں،اٹارنی جنرل، حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی، عدالتی ریمارکس

Published

on

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں حکومت اور مسلم لیگ ن نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ نے فل کورٹ کی تشکیل کے مختلف پہلوؤں پر سوالات اٹھائے، جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ فل کورٹ کی استدعا اگر قبول کر لی جائے تو مستقبل میں ہائیکورٹس میں بھی چالیس یا ساٹھ رکنی بینچ بنائے جائیں گے؟۔

ایکٹ کی تشکیل کی پارلیمانی کارروائی پچھلی سماعت پر طلب کی گئی تھی لیکن پیش نہ کی جا سکی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر سے رابطہ کیا ہے،امید ہے کل تک ریکارڈ مل جائے گا۔

فل کورٹ بنانے کی درخواستیں

کیس کی سماعت آٹھ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی جبکہ بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہراورجسٹس مظاہر نقوی،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔ سماعت کے آغازپر اٹارنی جنرل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی۔ اور عدالت کو بتایا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست دائر کر دی ہے۔

عدالت میں موجود مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین احمد نے بھی عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست کو ابھی نمبر الاٹ نہیں ہوا۔فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہے اس لیے پی ٹی آئی کی جانب سے موجود ہوں۔

پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک مل جائے گا، اٹارنی جنرل

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کاروائی کا ریکارڈ مل جائے گا،اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیررسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے،عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے،قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے،عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے،قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں،سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے،سپریم کورٹ رولزمیں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے،عدلیہ کی آزادی اوررولز سے متعلق مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے، جسٹس عائشہ ملک

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں،قانون سازی کے اختیار سے متعلق مقدمات مختلف بنچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی کی کوئی مثال ہے؟آرٹیکل 191 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے حکومت فل کورٹ کا مطالبہ کر رہی ہے،کیسے طے ہوگا کہ کونسا مقدمہ فل کورٹ نے سننا ہے کونسا نہیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کیلئے صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا،رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی،ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ اٹارنی جنرل کی اس دلیل پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں،سپریم کورٹ کا کوئی بھی بنچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے،رولز،آئین اورقانون کے تحت کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟۔ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہوگا کہ کونسا کیس فل کورٹ سنے؟۔کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سننا تھا؟۔

جسٹس عائشہ ملک کے ان سوالات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے۔ چیف جسٹس نے اس نکتے پر ریمارکس دیئے کہ انیس سو چھیانوے سے عدالیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں۔بظاہر یہ آپکا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے،عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔ اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کے انتظامی امور میں سے ہے،

اگر تین رکنی بنچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے؟۔فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔

حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی،جسٹس منیب اختر

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔ اس پرجسٹس  عائشہ ملک نے کہا کہ آپکی منطق سمجھ سے باہر ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بنچ کا برا ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا آپکے مطابق رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے،عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بنچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا،یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پرعملدرآمد سے روک رکھا ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟پارلیمنٹ کہتی ہے پانچ رکنی بنچ ہو اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔

کیا لاہور ہائیکورٹ میں60ججز سماعت کریں گے،جسٹس مظاہر علی اکبر

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے،قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے نکتہ اٹھایا کہ پارلیمنٹ پانچ ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے،ہائیکورٹس بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں،کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے؟۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں، دو ہزار بارہ میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جا چکا ہے۔کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟۔فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بنچ حکم امتناع میں اپنا ذہن استعمال کر چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں اس لیے اس پر بات نہیں کرونگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے نکتہ اٹھایا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائیکورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہونگی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنادے تو کیا پوری ہائیکورٹ مقدمہ سنے گی،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا تمام آٹھ ججز فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گی؟۔ جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا بنچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے، کیا ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں۔ اس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کررہے ہیں،کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نےفل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی تحفظات کا اظہار کیا۔جسٹس شاہد وحید نے بھی کہا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟۔

درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آگئی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو یاد دلایا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بنچ پر اعتراض کیا تھا،جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے جواب دیا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا تھا اور نو رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہو بھی تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں؟ ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے معروضات پیش کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کیلئے تعین کرنا ہے کہ بنچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے،عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت درکار ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے  کہا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کیلئے ہوتا ہے،بیس سال بعد شاید زمینی حالات اور آئین مختلف ہو۔ اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

آئی جی جیل کیس میں فل کورٹ بنا تھا، بیرسٹر صلاح الدین احمد

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ن لیگ کی درخواست پر نمبر لگ گیا؟ ۔ مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ درخواست آج ہی دی تھی نمبر لگ چکاہے۔ اس کے ساتھ ہی صلاح الدین احمد نے دلائل کا آغاز کیا۔صلاح الدین احمد نے کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے،فل کورٹ کیلئے درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں،جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی فل کورٹ بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے وضاحت کی کہ جسٹس فائز عیسی کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا،چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسی کیس نہیں سن رہے تھے۔ اس پر صلاح الدین احمد نے موقف اختیار کیا کہ سات رکنی بنچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی،بعض اوقات بنچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کیلئے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسی کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے۔ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے،معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا،دونوں ججز کیخلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیئے،کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔ اس پر صلاح الدین احمد نے آئی جی جیل خانہ جات کیس کی مثال پیش کی اور بتایا کہ تب بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی تھی۔

جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں، بیرسٹر صلاح الدین احمد

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کردیا گیا تھا،وہ چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کرسکتے تھے،معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کررہے تھے۔ بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیار کو اسٹرکچر نہیں کرتے، اس پر جسٹس منیب اختر نے یاد دلایا کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں پانچ رکنی بنچ کی بات کی گئی ہے،مسلم لیگ ن فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں،سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ صلاح الدین احمد کا موقف تھا کہ جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ کی کاروائی کا ریکارڈ دوبارہ طلب کرتے ہوئے کارروائی غیرمعینہ وقت کے لیے ملتوی کردی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین