Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

دہشتگردی خیبر پختونخوا میں جڑیں پکڑ گئی

Published

on

دو ہزار آٹھ میں  شروع ہونے والی دہشت گردی کے مقابلے حالیہ لہر مختلف ہے ، حالیہ لہر میں ٹارگٹ پولیس اور سیکورٹی فورسز ہیں

خیبر پختونخوا میں  پولیس اہلکار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 4 ماہ میں صوبے میں تقریباً 125 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں میں 200 سے زائد قانون نافذ کرنے والے اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ اس میں سوات کبل سی ٹی ڈی کمپائونڈ میں جاں بحق ہونے والے 17 افراد اور زخمی ہونے والے 50سے زائد افراد شامل نہیں ، کیونکہ اس وقعے کو ایک اتفاقیہ حادثہ قرار دیا گیا ہے ۔

جنوری مہلک ترین مہینہ

جنوری پولیس اہلکاروں کے لیے مہلک ترین مہینہ ثابت ہوا ،جس میں  15 دہشت گرد حملوں میں 116 پولیس اہلکار شہید ہوئے  ۔ سب سے تشویشناک واقعہ  30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والا تباہ کن بم دھماکہ تھا، جس میں 80 سے زائد اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے  ۔

فروری اور مارچ میں حملوں میں کمی کے باوجود ان دو ماہ  کے دوران حملوں میں جانیں گنوانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے۔ دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں  کو جس تیزی سے نشانہ بناتے رہے ہیں وہ یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے ، کوئی لاکھ کہے ، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں صوبہ بھر میں مضبوط ہو چکی ہیں۔

حملوں کی خطرناک نوعیت

دہشتگرد  جب سوات تک پہنچ سکتے ہیں اور صوبائی دارالحکومت  پشاور میں   گورنر ہاؤس اور وزیر اعلٰی  ہاؤس سے صرف چند کلومیٹر اور آئی جی پولیس کے دفتر سے چند قدم پر واقع پولیس لائن کونہ صرف نشانہ بنا سکتے ہیں بلکہ اندر جاکر 80افراد کو شہید کر دیتے ہیں تو اس سے زیادہ اور کیا تباہی ہو سکتی ہے ، یہ بات درست ہے کہ سال 2013ء کے مقابلے میں یہاں دہشت گردی کی نئی لہر کافی کمزور ہے اس وقت ہر روز دھماکے ہوتے تھے اور عام شہریوں کو مساجد اور بازاروں میں نشانہ بنایا جا تا تھا اس وقت سرکاری تنصیبات تک ان کی رسائی انتہائی کم تھی ، اب اگر چہ حملوں میں اس طرح سے تیزی تو نہیں آئی مگر حملوں کی نوعیت اتنی خطرناک ہے کہ اب صوبے کے ہر ضلع میں ہزاروں لوگ ان حملوں کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ان پولیس کے جوانوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے ۔

چند ماہ قبل بنوں میں سی ٹی ڈی کے کمپاؤنڈ میں دہشت گردوں نے کئی روز تک پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنائے رکھا ، فوج ان کی مدد کو پہنچی ، دہشت گردوں کو تو مار دیا گیا مگر وہ پولیس اہلکار اورسیکورٹی فورسز کے اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے جو دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے کے لئے اس کوشش میں تھے کہ وہ یرغمال بنائے گئے اہلکاروں کی زندگی بچا سکیں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا ، یہ وہ جگہ تھی جہاں سی ٹی ڈی نے دہشت گردوں کو پکڑ کر رکھا تھا اور انہیں دہشتگردوں نے دوران حراست وہ مقصد حاصل کر لیا جو شاید باہر سے حاصل کرنا ممکن نہیں تھا ۔

دہشتگردوں کے پاس جدید امریکی اسلحہ

ایک اور واقعہ جس نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں وہ پشاور شہرکے علاقے سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر سربند میں ایک تھانے پر دستی   بم کا حملہ تھا ، تھانے میں نفری کم تھی اس لئے مدد کے لئے ایک ڈی ایس پی اپنے گارڈ سمیت رات کے وقت وہاں گئے تو دہشت گردوں نے سنائپر گن اور نائٹ وژن تھرمل ڈیوائس کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا اور تھانے کے قریب ہی شہید کر دیا ، جس کے بعد آئی جی پولیس کو یہ حقیقت بتانا پڑی کہ پولیس کے پاس نائٹ وژن ہتھیار نہیں  جبکہ دہشت گرد جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔

اب تو یہ حقیقت بھی سامنےآگئی ہے کہ امریکی جب افغانستان سے نکل رہے تھے تو انہوں نے اپنا تمام جدید اسلحہ افغانستان میں چھوڑدیا تھا وہی اسلحہ افغانستان میں فروخت ہوتا رہا اور دہشت گردوں نے وہ  اسلحہ پاکستان منتقل کر دیا ،اس میں نائٹ وژن آلات بھی شامل ہیں جو پولیس کے پاس بالکل موجود نہیں۔

امریکا نے پولیس کو گاڑیاں اسلحہ نہ دیا، کیوں؟

حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پولیس کی کیپیسٹی بڑھانے کے لئے کئی اقدامات کئے پولیس کے رائڈر سکواڈ کو موٹرسائیکلز فراہم کیں ، پولیس کو گاڑیاں دی گئیں ، پولیس کے اہم دفاتر میں عمارتیں تعمیر کی گئیں ،پشاور پولیس لائن ، جس کی مسجد میں دھماکہ ہوا، اس کے نئے حصے کی تعمیر بھی امریکہ  کی مدد سے  ہی ہوئی ،  لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس یا حکومت میں کسی نے امداد کا تقاضا کرتے  وقت  جدید ہتھیار  کیوں فراموش کئے؟  یعنی جس چیز کی زیادہ ضرورت تھی  پالیسی بنانے والے اس کا انتظام کرنا بھول گئے ، خیبر پختونخوا میں تو  حالت  یہ ہے کہ 2008 ء سے 2010 ء کے دوران جب عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی  کی مخلوط حکومت تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ زوروں پر تھی تو پولیس کے لئے 7 ارب روپے کا اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹس خریدی گئیں جو بعد میں ناقص اور غیر معیاری نکلیں، وہ بلٹ پروف  تھیں ہی نہیں، نیب نے کارروائی کی ، ٹھیکیدار        ارشد مجید اور سابق آئی جی پولیس ملک نوید کو گرفتار کیا گیا ،اس جرم میں سابق آئی جی ملک نوید اب بھی جیل میں ہیں، مگر اس سکینڈل سے کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا، پولیس اب بھی بے سرو سامانی کا سامنا کر رہی ہے ۔

گولیاں بلٹ پروف ہیلمٹ کو چیر گئیں، کیسے؟

گذشتہ دنوں کوہاٹ میں پولیس پر حملہ ہوا تو جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی جیکٹس اور ہیلمٹ میں گولیاں دھنس گئیں ، عام تاثر یہ تھا کہ یہ جیکٹس اور ہیلمٹ غیر معیاری تھے تاہم بعد میں انکوائری ہوئی اور یہ کہا گیا کہ جیکٹس اور ہیلمٹ کی گولی جسم میں جانے کے شواہد نہیں ملے، انکوائری رپورٹ درست ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ گول ایک تہہ سے کیسے نکل گئی؟

سوات کے علاقہ کبل کے سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں گذشتہ دنوں دھماکہ ہوا جس میں 12پولیس اہلکاروں سمیت 17افراد جان کی بازی ہار گئے اور 50سے زائد زخمی ہو ئے ، ابتدائی انکوائری رپورٹ  میں کہا گیا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ سے ہی یہ دھماکے ہوئے اور بڑے پیمانے پر  انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ۔

سترہ شہادتوں پر ایک بھی ذمہ دار کا احتساب نہ ہوا

اسلحہ کوت میں کام کرنے والے ایک زخمی اہلکار کا کہنا ہے کہ جب یہ اسلحہ پکڑا جاتا ہے تو اسے بی ڈی یو اور بی ڈی ایس کی مدد سے ڈیفیوز کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے ذخیرہ کیا جاتا ہے ، پولیس رپورٹ کے مطابق اس میں ایسا اسلحہ بھی تھا جسے 2014سے یہاں ذخیر ہ کیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس میں غفلت ہوئی ہے جس کی ذمہ داری ذمہ داری کسی پر عائد ہونی چاہئے اور 17افراد کی موت پر اگر ایک افسر کو نوکری سے برخاست کیا گیا تو یہ کم سے کم سزا ہو گی لیکن نہ تو اس سمت میں کوئی انکوائری ہوئی ہے اور نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکا ہے ۔

شہدا ء کے لواحقین کی تسلی کے لئے چونکہ کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اس لئے  شہر شہر  لوگ پولیس کے تحفظ  کا مطالبہ لیے  سڑکوں پر نکل رہے ہیں ۔مسئلہ تو یہ ہے کہ یہاں نگراں حکومت وہ کام تو کرتی ہے جو اس کا کام نہیں مگر جو ان کو کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے  ۔ اب اگر امن وامان کی بحالی ان کا مینڈیٹ نہیں تو انہیں مدت ختم ہونے کے باوجود حکومت کرنے کا حق کس نے دیا ہے اور اگر خدا نخواستہ اس دوران امن وامان کی صورتحال خراب ہوتی ہے تو جوابدہ کون ہوگا؟ یہ سوال کس سے پوچھا جائے اور کون اس کو جواب دے یہ بذات خود ایک سوال ہے ۔

ممتاز حسین بنگش پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، کئی اداروں کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، نیویارک میں پاکستان ابروڈ کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں،افغان امور، دہشتگردی اور قبائلی علاقہ جات کے امور پر اتھارٹی تصور ہوتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین