Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

18 رکنی کاکڑ کابینہ اورنگران وزیراعلیٰ سندھ نے حلف اٹھا لیا

Published

on

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جمعرات کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی کابینہ کے ارکان سے حلف لیا۔

ایوان صدر میں تقریب حلف برداری کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

ڈاکٹر شمشاد اختر کو خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر گوہر اعجاز کو نگراں وفاقی وزیر تجارت و صنعت بنایا گیا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رہنما سرفراز بگٹی کو عبوری وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے۔

نگراں کابینہ میں صحافی مرتضیٰ سولنگی وزیر اطلاعات اور سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے وزیر خارجہ کا حلف اٹھا لیا ہے۔

اداکار جمال شاہ نے وزیر ثقافت اور سید انور علی عبوری وزیر دفاع کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین رہنے والے ڈاکٹر عمر سیف نے نگراں وزیر آئی ٹی کا چارج سنبھال لیا۔

مدد علی سندھی، خلیل جارج، محمد سمیع سعید نے بھی نگراں وفاقی وزیر کا حلف لیا ہے۔

ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں احمد عرفان اسلم، ڈاکٹر عمر سیف، احمد تارڑ، مشعال ملک، شاہد اشرف تارڑ نے بھی حلف لیا۔

ذرائع کے مطابق سمیع سعید کو منصوبہ بندی و ترقیات کی وزارت دی گئی ہے، گوہر اعجاز کو صنعت و تجارت کا وزیر بنایا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خلیل جارج وزیر اقلیتی امور ہوں گے، مدد علی سندھی کو وزارت تعلیم دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق انیق احمد وزیر مذہبی امور اور جلیل عباس جیلانی وزیر خارجہ ہوں گے۔

نگراں وفاقی کابینہ میں 11 وفاقی وزیر اور 7 معاون خصوصی شامل ہیں۔

نگران وزیراعلیٰ سندھ نے حلف اٹھا لیا

دریں اثنا سندھ کے نامزد نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے ان سے حلف لیا، اب وہ صوبائی کابینہ کا انتخاب کریں گے۔

سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے جسٹس مقبول باقر کا نام تجویز کیا تھا اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم نے دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد ان کے نام پر اتفاق کیا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقرکی پیدائش 1957 کو کراچی میں ہوئی۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، 2002 میں انھیں سندھ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور اگلے ہی سال مستقل جج بن گئے۔

جسٹس مشیر عالم کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ذمہ داریاں ادا کیں، وہ ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے سے انکار کیا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد آخری جج تھے جو بحال ہوئے۔

2013 میں ان پر کراچی پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم لشکر جہنگوی نے قبول کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر 2015 میں سپریم کورٹ میں جج تعینات کیے گئے، جب قومی احتساب بیورو عمران خان کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے خلاف گہرا تنگ کر رہا تھا ان دنوں میں انہوں نے نیب کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جس میں سعد رفیق کیس مقبویت رکھتا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ قاضی پر جب ریفرنس دائر کیا گیا تو وہ آخری وقت تک ان کے ساتھ کھڑے رہے، انھوں نے فل بینچ فیصلے میں بھی اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ نگران وزیر اعلیٰ سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے ان کا نام احتساب بیورو کے سربراہ کے طور پر بھی دیا گیا تھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین