Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

اواسٹن انجکشن اور بے حس حکومتیں

Published

on

اس سے بری قسمت کیا ہو گی کہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں ہم انحطاط پذیری کا شکار نہ ہوں ۔عدلیہ ،تعلیم ،بیوروکریسی ،سیاست ،جس چیز کا نام لو ہمیں ایک سے بڑ افراڈ سامنے نظر آئے گا ۔ غیر مسلموں کے ممالک میں ہمیں کہیں بھی دوا اور خوراک میں ملاوٹ نہیں ملتی وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں ،دوسرے فراڈ کرتے ہیں لیکن دوا اور خوراک کو وہ خالص رکھتے ہیں ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں کہیں بھی خالص خوراک ملتی ہے نہ خالص دوائی ۔میڈیکل سٹورز کے باہر لکھا ملتا ہے کہ یہاں خالص ادویات دستیاب ہیں جسکا صاف مظلب ہے کہ ہمارے ہاں جعلی ادویات بکثرت پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے میڈیکل سٹور والا یقین دہانی کروا رہا ہے کہ یہاں خالص ادویات موجود ہیں ۔

آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل سامنے آتا رہتا ہے کہ فلاں دوائی کے غلط استعمال سے اتنے بندے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں ۔پھر چند دن کے لئے اس دوائی کو بند کر دیا جاتا ہے انکوائری ہوتی ہے کلین چٹ دے دی جاتی ہے جن کے گھر والے جان گنوا بیٹھتے ہیں انھیں چند پیسے دے کر منہ بند کروا دیا جاتا ہے ۔ہیومن رائٹس کی تنظیمیں تو موجود ہیں لیکن ان کے پاس بھی ایسے کیسز کو اجاگر کرنے کا وقت نہیں شاید اس سے ان کے فنڈز بند ہو جاتے ہیں۔

ابھی چند سال قبل 2012 میں پی آئی سی لاہور میں ایک کیس ہوا جس میں 200 سے زائد مریضوں کی موت کا ذمہ دار اسوٹاب کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ 25 کلوگرام کے ڈرم میں پائیرمیتھامین کی آمیزش غلطی سے ہوئی تھی۔ کراچی میں قائم کمپنی Efroze کی تیار کردہ دل کے امراض کی آلودہ دوائی – Isotab – لینے سے پی آئی سی لاہور میں “200 سے زائد افراد ہلاک اور 1000 کے قریب شدید بیمار ہو گئے تھے ۔ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2011 کے اوائل میں لاہور بھر کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں میں منہ اور معدے سے خون آنا، جلد پر عجیب و غریب سیاہ نشانات اور خون کے سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس کی انتہائی کم سطح اس کی علامات تھیں۔پہلے تو ڈاکٹروں کو شبہ تھا کہ انہیں ڈینگی کی نئی وبا کا سامنا ہے لیکن جب ان میں ڈینگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو وہ حیران رہ گئے۔ جنوری کے وسط تک، اس پراسرار بیماری سے 25 افراد ہلاک ہو چکے تھے ۔جن کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی رہی۔منشیات کی زیادہ مقدار یا آلودگی سے منفی ردعمل کا شبہ کرتے ہوئے، سیکرٹری صحت پنجاب نے فوری طور پر تقریباً 46,000 مریضوں کو تقسیم کی گئی پانچ مشتبہ ادویات کو واپس منگوا لیا۔ ابتدائی ٹیسٹ پاکستان میں کیے گئے اور پھر ان ادویات کے نمونے دنیا بھر کی لیبارٹریوں میں بھیجے گئے۔

 ۔پنجاب حکومت نے ایکشن لیتے ہوئے وہ دوائیاں مریضوں سے واپس تو لے لیں لیکن اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھ چکی تھی ۔ایکشن یہ ہوا کہ پی آئی سی کے سٹور کیپر ذوالفقار اور فارماسسٹ یوسف کو ادویات کے ری ایکشن سے ہونے والی اموات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔حالانکہ یہ دو گرفتار افراد کم کیڈر کے ملازم تھے اور ادویات کو ذخیرہ کرنے یا خریدنے میں ان کا کوئی فیصلہ کن کردار نہیں تھا،“

“پنجاب حکومت نے باضابطہ طور پر لاہور ہائی کورٹ سے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کی درخواست تو دے دی لیکن  200 افراد کی موت کے ذمہ داروں کو آج تک کیا سزا ملی یہ ایک معمہ ہے اور معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے کہ شائد یہ سب بھیڑ بکریاں تھے۔

اسی طرح پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جعلی اسٹنٹ ڈالنے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پی آئی سی کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (اسٹور) نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا کہ ہسپتال میں کئی مریضوں میں ایکسپائرڈ سٹینٹس ڈالے گئے تھے۔ایکسپائرڈ اسٹینٹ اسکینڈل میں ملوث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے 42 ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے خلاف کارروائی کی منظوری دی۔غالبا یہ انکوائری بھی عالم بالا میں ہوئی ہو گی ۔

یہ تو تھے ماضی کے معاملات ابھی حال ہی میں ایک اور اسکینڈل سامنے آیا ہے ۔لاہور میںشوگر کے امراض میںمبتلاءمریضوں نے اپنی بنائی کو محفوظ رکھنے کے لیے اویسٹن نامی ٹیکہ لگوایا تو سینکڑوں مریضوں کی انفیکشن کی وجہ سے بنائی چلی گئی ، کسی مریض کی ایک آنکھ کی بنیائی چلی گئی تو کسی مریض کی دونوں آنکھوں کی بنیائی چلی گئی۔ یہ ایک بہت بڑا سکینڈل ہے ۔اویسٹن ٹیکہ کینسر کے مریضوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن ہسپتالوں میں یہ ٹیکہ شوگر کے مریضوں کی بنیائی کوبچانے کے لیے لگانا شروع کر دیا گیا تاکہ اپنی جیبیں گر م کی جا سکیں۔ اس غلط انجکشن لگانے سے 75 کے قریب افراد اپنی بنیائی سے ہاتھ دھو بیٹھے جن مریضوں کی بنیائی چلی گئی انہیں حکومت پنجاب نے ہسپتالوں میں منتقل کر کے انکا علاج کرنے کی کوشش کی لیکن مسئلہ حل نہ ہو سکا بیشتر بنیائی سے محروم ہی رہے۔

 آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے کے کیس میں لاہور کا ایک ہسپتال جس کا نام مغل آئی ہسپتال ہے سب سے نمبر لے گیا یہاں متاثر ہونے والوں کی تعداد تقریبا 45 ہے۔ ایک متاثرہ مریض کے مطابق اسے آٹھ نومبر دو ہزار بائیس کو مغل آئی ہسپتال سے اویسٹن انجکشن لگایاگیا، سولہ گھنٹے بعد آنکھ ضائع ہو گئی، ہسپتال والوں نے ستائیس نومبر کو آنکھ سلائی کرکے بند کر دی ،ڈاکٹرز نے کہا اگر آنکھ بند نہ کی تو پھٹ جائے گی،مارچ دو ہزار تئیس میں ٹانکے کھولے تو آنکھ ضائع ہوچکی تھی،اسی طرح مغل آئی ہسپتال سے اویسٹن انجکشن لگوانے والے مزید چالیس سے زائد مریضوں کی بینائی متاثر ہونے کا انکشاف ہو چکا ہے۔، وزیر صحت نے انکوائری کا حکم تو دے دیاہے لیکن ابھی تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی شائد اس مشن پر ہیں کہ ڈاکٹروں کو کیسے بچایا جائے اور اس کمپنی کو کیسے کلین چٹ دی جائے جس نے یہ انجکشن بنائے تھے بظاہر تو موجودہ حکومت اپنے مشن میں کامیاب نظر آتی ہے اور لگتا ہے کہ اسے بھی ماضی کی طرح اس کیس کو دفن کرنے میں کامیابی مل جائے گی ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنی زبان اور آنکھیں اس مسئلے پر بندکر چکی ہیں ۔لیکن شاید ان سب کوعلم نہیں کہ بنیائی متاثر ہونے والوں کی بد دعائیں کہاں تک انکا پیچھا کریں گی ۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین