Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

نواز شریف نے مفاہمت کا رستہ چن لیا

Published

on

آخر کار سابق وزیر اعظم نواز شریف جلا وطنی ختم کرنے کے بعد اپنے  آبائی شہر لاہور پہنچ گئے اور مینار پاکستان پر ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے کہ مسلم لیگ نون  نے حجم کے اعتبار سے ایک بڑا جلسہ کیا تھا اور اس جلسے ذریعے انہوں نے سیاسی دھاک بیٹھنے کی کوشش کی ہے۔

نواز شریف چار برس کے بعد واپس  اپنے وطن لوٹے ہیں۔ وہ 2019 میں بیماری کی وجہ سے بیرون ملک گئے۔ نواز شریف  دوسری مرتبہ جلاوطنی کے بعد ملک میں واپس آئے ہیں  اس پہلے وہ 2007 میں جلاوطنی ختم کرکے وطن پہنچے تھے لیکن اس مرتبہ ماضی کی نسبت انہیں ایک غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا جیسے وہ اپنی جماعت مسلم لیگ نون کی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد واپس لوٹے ہوں۔

لوگوں کی تمام تر توجہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خطاب پر تھی لیکن ان کا خطاب آن کی ماضی کی تقاریر سے بالکل میل نہیں کھا رہا ہے۔ اس مرتبہ انہوں نے تمام اداروں کے ملکر کام کرنے کی بات کی جو اُن کے پہلے بیانہ سے بالکل مختلف ہے۔ نواز شریف نے اپنی نااہلی پر جو بیانہ اپنایا تھا کہ وہ "ووٹ کو عزت دو” کا تھا لیکن وطن واپسی پر ان کے خطاب میں عام انتخابات کرانے کی کوئی بات نہیں تھی۔

سابق وزیر اعظم کی  تقریر ان کی  سزا کے بعد در پیش تکالیف اور پریشانیوں کے بارے میں تھی اور باقی کچھ حصہ ان کے ماضی میں کئے گئے منصوبوں کے بارے میں تھا۔ایک طرح سے نواز شریف نے غیر متنازعہ اور کچھ حلقوں کیلئے قابل قبول تقریر کی جسے عامیانہ زبان میں ایک” ہومیوپیتھک” خطاب کہا سکتا ہے جس کا فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اس کا نقصان نہیں  ہے۔

مینار پاکستان پر ایک کامیاب جلسہ کرنے سے مسلم لیگ نون کی قیادت کا کام ختم نہیں ہوا ہے بلکہ ابھی انتخابات میں اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو مسلم لیگ نون کو عام لوگوں کو سوال کا تسلی بخش جواب دینے اور مطمن کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی 16 ماہ کی حکومت مہنگائی کے طوفان کی ذمہ دار نہیں ہے. یہ اتنا آسان کام نہیں ہے اور نہ کوئی مسلم لیگ نون کے موقف کو آنکھیں بند کرکے مان لے گا۔ مسلم لیگ نون نے ایک نیا بیانیہ متعارف کرانے کی کوشش کی ہے کہ نواز شریف ملک کو مسائل سے نکالیں گے۔ یہ ایک اچھا نعرہ ہو تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا اس سوال کا جواب خود ایک پہیلی ہے۔

ماضی میں مسلم لیگ نون  اپوزیشن میں رہنے کے بعد حکومت میں آئی لیکن 16 ماہ کی حکومت اور اس کی کارکردگی پر دوبارہ حکومت میں آنا آسان کام نہیں ہے بلکہ مشکل ترین مرحلہ ہے۔ ویسے بھی ملکی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو حقائق یہ گواہی دیتے ہیں  کہ تواتر کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کو ایک معیاد سے زیادہ حکومت نہیں ملی اور اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا ہے البتہ اپوزیشن ضرور اقتدار میں آئی ہے. شاید یہ سیاسی مقولہ پاکستان کیلئے لیے ہی کہا گیا ہے کہ ” آج اپوزیشن آنے والے کل کی حکومت ہوتی ہے”.

یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ موجودہ حالات سے ملک کو باہر لانے کیلئے مسلم لیگ نون کے پاس کیا حکمت عملی ہے اور کیا نواز شریف کی ٹیم اُن کے بھائی کی ٹیم سے مختلف ہے؟ کیا اس مرتبہ نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کچھ ایسا طلسم دکھائیں گے جو وہ پہلے نہیں کرسکے۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے نواز شریف نے وہ مشورے اپنے بھائی کو کیوں نہیں دیئے جس پر عمل پر کر اب ملک کو مسائل کے گرداب سے نکلا جاسکے.

اس وقت مسلم لیگ نون کیلئے سب بڑا مسئلہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک کے اثر کو زائل کرنا ہے. اس ووٹ بینک کے آگے بند باندھنا ہے. یہ کوئی آسان کام نہیں ہے. جولائی 2022 میں مریم نواز کی انتخابی مہم بھی کوئی مثبت نتائج نہیں لا سکی اور مسلم لیگ نون کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت ختم ہو گئی۔ اب صورت حال پہلے سے بھی خراب ہے اس کا حل تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ان مسائل کیلئے حل کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے پر کام شروع کیا یا پھر  کسی پر ” انحصار” کا سوچ کر بیٹھی  ہے۔

نواز شریف کی غیر معمولی اور انتہائی سازگار حالات میں واپسی یقیناً اقتدار میں واپسی کا اشارہ دے رہی ہے اور اُن کی جماعت مسلم لیگ نون  کے رہنماوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننیں گے۔ کیا نواز شریف کی واپسی اور ایک کامیاب جلسے نے مسلم لیگ نون کے اقتدار کی جانب جانے والے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا ؟ تو اس کا جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر کس گمان پر مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف کے چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنے کی بات کر رہے ہیں.

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جس طرح  سازگار ماحول میں واپسی ہوئی اس سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ اب ان کیلئے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہے۔ لگتا ہے نواز شریف نے مزاحمتی سیاست کی جگہ ایک مرتبہ پھر مفاہمتی راستے کو چن لیا ہے. ان حالات میں نواز شریف کو اپنے اس سوال کا جواب بھی مل جانا چاہیے کہ ” مجھے کیوں  نکالا”.

نواز شریف نے سیاست کا جس راستے سے آغاز کیا تھا لگتا ہے آج بھی اسی راہ پر ہیں۔ کیا موجودہ سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ نون مستقبل کی نئی کنگ پارٹی ہوسکتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین