Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

نگران آئی ایم ایف کا ہوگا

Published

on

جیسے جیسے قومی اسمبلی کی تحلیل کا وقت قریب آ رہا ہے نگران حکومت کے سربراہ  کے نام کیلئے اندازے لگانے بھی تیزی آ رہی ہے. اس وقت نگران وزیر اعظم کیلئے کئی نام گردش میں ہیں اور اس کیساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ کیا نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کا سنگھاسن سنبھالیں گے یا نہیں؟

قومی اسمبلی کی تحلیل میں اب مہینے نہیں بلکہ چند ہفتے ہی باقی رہ گئے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ ایسے میں نگران وزیر اعظم کے نام پر چرچا ایک معمول کی بات ہے لیکن نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کیلئے ان کے نام پر بحث غیر معمولی ہے کیونکہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں اور حکمران جماعت میں شامل پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے.

ملکی سیاسی میں اب تک مجموعی طور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے وزیر اعظم بننے کی روایت رہے ماسوائے چند مواقع کے، جب جماعت کے سربراہ سے ہٹ کر کسی دوسرے کو ملک کا وزیر اعظم بننے کا موقع ملا. ان میں محمد خان جونیجو، نواز شریف، میر ظفر اللہ خان جمالی، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقاں عباسی کے نام شامل ہیں.

نگران وزیر اعظم کیلئے کسی سیاست دان کے سوا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے نام مختلف حلقوں میں زیر گردش ہیں لیکن اب تک کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہوا ہے. حتی کہ دوبئی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بھی نگران وزیر اعظم کیلئے کسی نام پر متفق نہیں ہو پائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ جڑواں شہروں کے درمیان ہونا ہے۔ کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ ابھی اس نکتہ پر بھی فیصلہ ہونا ہے کہ قومی اسمبلی کی معیاد میں توسیع کرنی ہے یا پھر نگران حکومت قائم کی جائے۔ نگران حکومت کی معیاد 60 دن ہو  یا پھر 90 دن ۔ اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے  تو 60 دن ورنہ معیاد سے پہلے اسمبلی کی تحلیل ہونے پر انتخابات 90 دن میں ہوں گے۔

حکومت کا حال ہی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے. اس کیلئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ راولپنڈی آئی ایم ایف سے ڈیل پر عمل درآمد کیلئے نگران حکومت کے سربراہ  کیلئے ایسی شخصیت کو لانا چاہے گا جس کا تعلق مالیاتی ادارے سے ہو یا ان امور کو چلانے میں مہارت رکھتا ہو۔ اس کی تائید آئی ایم ایف کے حالیہ عدیم النظیر اقدام سے ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے کے وفد کا تمام اہم سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی قیادت سے ملنا اور 9 ماہ کے لیے 3 ارب ڈالرز کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر یقین دہانی لینا، واضح اشارہ ہے کہ نگران آئی ایم ایف کا ہوگا اور راولپنڈی ضامن ہوگا۔

نگران وزیراعظم کے لیے سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقت اور سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے نام باخبر حلقوں میں وثوق سے لیے جا رہے ہیں، دونوں کا مالیاتی بیک گراؤنڈ اور آئی ایم ایف کنکشن بھی انہیں اس دوڑ کا ڈارک ہارس بناتا ہے۔

 اب تک نگران وزیر اعظم بننے والوں میں سے چار سیاست دان، دو اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور ایک شخصیت کا تعلق عالمی مالیاتی ادارے سے تھا. سیاست دانوں میں غلام مصطفی جتوئی، میر بلخ شیر مزاری، ملک معراج خالد اور محمد میاں سومرو شامل ہیں، ججز میں جسٹس ریٹائرڈ میرہزار خان کھوسہ اور جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک جبکہ معین قریشی کا تعلق عالمی مالیاتی ادارے سے تھا۔ زیر گردش ناموں میں سے ابھی تک کسی اعلیٰ عدلیہ کے جج کا نام شامل نہیں۔

سیاسی حلقوں میں  اس اندیشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ نگران حکومت کی معیاد میں بھی توسیع ہوجائے، قومی اسمبلی کی معیاد بڑھانے کیلئے آئینی طور پر ایک راستہ موجود ہے لیکن نگران حکومت کی معیاد مقرر ہے اوراس کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے. ویسے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے انتخابات 90 دنوں میں نہ ہونے کے بعد اسی پیٹرن پر وفاقی نگران حکومت کی معیاد کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے. ایک عام خیال ہے کہ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ وفاقی نگران حکومت کی معیاد میں اضافہ ہوگا یا نہیں؟ نگران وزیر اعظم کیلئے ڈارک ہارس کون ہوتا ہے اب اس کا فیصلہ زیادہ دور نہیں۔

اُدھر سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی میں حائل مقدمات کی رکاوٹوں کو ختم کرنے کیلئے تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ کسی رکن اسمبلی کی نااہلی کیلئے پانچ برس کی معیاد مکمل کرنے کا قانون تو رائج ہوگیا لیکن اس کا اصل فائدہ اُسی وقت ہوگا جب نواز شریف کو جن دو ریفرنسوں میں سزا ہوئی ہے اس کیخلاف نواز شریف کی عدالت میں زیرسماعت اپیلیں منظور ہوجائیں اورسزا ختم ہو۔ اس کیلئے ضروری ہے نواز شریف کی سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت شروع ہو۔ ابھی یہ قانونی نکتہ اپنی جگہ قائم ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہلی کی جو سزا سنائی ہے اسے کسی قانونی سازی سے ختم کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تاہم قانونی ماہرین کی اکثریت کی رائے ہے کہ نئی قانون سازی کا فائدہ نواز شریف کو ہی ہوگا۔

 قانونی سوال اور نکات  اپنی جگہ، اصل بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کی واپس کب ہو گی؟ نواز شریف کی وطن لوٹنے کی بات تو ہو رہی ہے لیکن ان کے فوری واپس آنے کے آثار کم ہیں۔ نواز شریف کے واپسی پر وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور شہباز شریف کو اپنے بھائی کیلئے دستبردار ہونا پڑے گا۔ شریف بردارن میں سے کون سا بھائی راولپنڈی کیلئے زیادہ موزوں کون گا؟ نواز شریف کے وزیر اعظم  بننے سے شہباز شریف کا  سیاسی کردار محدود ہو جائے گا۔

یہ بھی امکان ہے کہ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صورت پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ مل جائے، اس طرح شہباز شریف کو کسی حد محدود سیاست کرنے کا ایک جواز مل جائے گا. دوسری صورت میں نواز شریف  کی وزارت عظمی  سے دستبرداری پر ان کی بیٹی پنجاب میں وزیر اعلیٰ بن سکتی ہیں جو ایک تاریخ ہوگی.

 آصف علی زرداری  بھی وزارت عظمیٰ کیلئے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔ ان کی بھی خواہش ہے وہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھائیں، دیکھنا ہوگا اس کیلئے وہ اپنی سیاسی کرامات والی پٹاری میں سے کیا نکالتے ہیں؟ اور وہ کونسی سی سیاسی چال چلتے ہیں؟ جس سے وزارت عظمی ان کے حصے میں آجائے۔  آصف علی زرداری کو پنجاب میں کم ازکم دو درجن سے زیادہ نشستوں کی ضرورت ہوگی جو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف سے حاصل کرنا شیر کے منہ سے نوالہ چھین سے کم نہیں۔ اگر وزارت عظمیٰ بھٹو یا شریفوں میں سے کسی ایک کے حصے میں آتی ہے تو پانچویں بار ہوگا جب بھٹو یا شریف خاندان میں سے وزارت عظمیٰ کا ہما کسی کے سر بیٹھے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو دو، دو مرتبہ جبکہ نواز شریف تین اور ان کے بھائی شہباز شریف ایک مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔

انتخابات کے نتائج  وزارت عظمی ٰکیلئے کھینچَاتانی کو زیادہ دلچسپ بنا دیں گے تاہم اس وقت تمام تر توجہ اسی طرف ہے کہ نگران وزیر اعظم کیلئے ڈارک ہارس کون ہوگا ؟

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین