کالم

اسلام میں عبادت کا تصور

Published

on

دینِ اسلام میں عبادت اور بندگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ربِ کائنات سورہ ذاریات میں انسانوں اور جنات کی پیدائش کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

’’ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘(۵۶)

’’اور میں نے جو بنائےجن اور انس سو اپنی بندگی کو‘‘

انسان اور جن دونوں مخلوقات کو رب تعالیٰ نے عبادت کے لئے پیدا کیا ہے،مگر سوال یہاں یہ ہے کہ عبادت سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ اور حضور انورﷺ کے نزدیک عبادت کا تصور کیا ہے،عبادت کس چیز کا نام ہے۔ آج کے دور میں اس فرد کو بڑا شخص سمجھتے ہیں جو ہر وقت عابد کے حجرے میں موجود ہو،بس نماز اور مصلیٰ سے اس کا واسطہ ہو۔صوم و صلوٰۃ واقعی عبادت اور بڑے ارکانِ اسلام ہیں۔لیکن صرف صوم وصلوٰۃ ہی عبادت کا نام نہیں یہ تصور عبادت کا محدود تصور ہے۔اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ اسلامی عبادت صرف صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کا نام ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان کو ہمہ وقت نما زاور روزہ میں ہی مشغول رہنا چاہئیے کیونکہ وہ اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے جبکہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’طلب الحلال فریضۃ علی کل مسلم‘‘

’’ہر مسلمان پر حلال روزی تلاش کرنا فرض ہے‘‘

اب ظاہری بات ہے کہ حلال روزی حاصل کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے محنت و مشقت کی ضرورت ہے۔اور پھر حلال روزی سبب ہے مناجات کی قبولیت کا اور نیک اعمال کے سرد ہونے کا۔سب کچھ ترک کرکے مسجد میں بیٹھ جانا یہ عیسائیت میں تو عبادت ہو سکتی ہے مگر اسلام میں نہیںِ،ہندوستان کے مذاہب میں بھی عبادت کے لئے جوگی بننا پڑتا تھا،مہاتما نے بھی خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے تاج و تخت چھوڑ کر جنگل کی راہ لی تھی۔مگر نبی مہربانﷺ کی شریعت میں عبادت کا تصور کچھ مختلف ہے کیونکہ اسلام ایک دینِ فطرت کا نام ہے اسلام عبادات سے یادہ زور معاملات و حقوق پر دیتا ہے،رہبانیت کی نفی کرتا ہے حقوق سے بھاگنے والے افراد پر ربِ کائنات کس قدر ناراض ہوتے ہیں ،اس بات کا اندازہ آپ کو سورہ مائدہ  کی آیت:۸۷ سے ہوسکتا ہے۔ ’’اے ایمان والو مت حرام ٹھراو ستھری چیزیں جو اللہ نےتم کو حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ نہیں چاہتا زیادتی والوں کو‘‘

یہ آیت کا  شانِ نزول در حقیقت وہ واقعہ ہے جس میں جن نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم جن میں حضرت عثمان ابن مظعون، حضرت عبد اللہ ابن عمر ،حضرت علی،حضرت عبد اللہ ابن مسعود، حضرت مقداد ابن اسود اور حضرت سالم رضی اللہ عنھم شامل تھے۔یہ پروگرام بنایا کہ عورتوں سے دور رہینگے،گھروں میں گوشہ نشین ہوجائیں  گے اور لذیذ اور مزے دار چیزوں کے قریب  نہیں جائیں گے۔ رات کو قیام کریں گےدن کو روزہ رکھیں گے، غرضیکہ بالکل ترکِ دنیا اور رہبانیت کا ارادہ کیا۔جس پر حق تعالیٰ نے مذکورہ آیت کے ذریعہ اس پروگرام کی نفی فرمائی،حقوق کی ادائیگی پر رب تعالیٰ کی طرف سے بڑے اجر و ثواب کے وعدے موجود ہیں۔

          صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے حضور اکرمﷺ سے سوال کیا کہ ہم اپنے بال بچوں کو کھلانے یا پلانے کے لئے محنت ،مزدوری اور نوکری کرتے ہیں کیا ہماری زندگی کا یہ مشغلہ خدا کے نزدیک نیکی اور عبادت نہیں ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دنیا کماتا ہے حلال روزی سے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ گداگری  سے بچ جائے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرے  تو وہ مرنے کے بعد  خدائے تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں رات  کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔

ماں باپ کی خدمت کو قرآن کریم نے عبادتِ الٰہی کے بعد درجہ دیا ہے اور حضور  نبی مہرباں ﷺ نے فرمایا’’ احسنکم احسنکم لاھلہ‘‘ ’’تم میں سب سے اچھا  وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھا ہو‘‘ کیا بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی معمولی درجہ کی ہو سکتی ہے؟ ایک دفعہ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔حضور اکرمﷺ جب ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تو یہ اپنے آقا کو دیکھ کر رونے لگے۔حضورﷺ نے تشفی دیتے ہوئے فرمایا اے سعد! روتے کیوں ہو؟’’تم نے جو خرچ خدا کی خوشنودی کے لئے کیا ہے اس کا تمہیں خدا کے ہاں ثواب ملےگا۔یہاں تک کہ تم نے اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ کھانے کا دیا ہےاس پر بھی خدا تعالیٰ ثواب مرحمت فرمائیں گے‘‘ جس مذہب نے بیوی کے منہ میں لقمہ دینے کو صدقہ قرار دیا ہو اس  مذہب و دین کے ماننے والے حقوق کی ادائیگی سے کیسے منہ پھیر سکتے ہیں۔احادیثِ مبارکہ میں حضرت  ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کے اعتکاف توڑنے کا ایک واقعہ مذکور ہے۔حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنھما مسجدِ نبوی میں اعتکاف فرمارہے تھے،اعتکاف کی حالت میں ایک شخص آیا اور اس نے آواز دی ۔اے ابن عم رسول اللہ ﷺ۔اے رسول اللہ کے چچا زاد ! مجھے میرے قرض خواہ نے پریشان کررکھا ہے اس سے میری سفارش فرما دیجئیے۔آپ نے اس کی فریاد سن کر سفارش کی کہ اس کو مہلت دےدو،اس نے مہلت دیدی۔آپ واپس تشریف لائے۔شاگردوں نے پوچھا:حضور! اس معمولی کام کے لئے مسجد نبوی کے اعتکاف کو توڑ دیا کیا وجہ ہے؟ آپ نے روضہ اطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مجھے اس قبر شریف میں آرام فرمانے والے رسول نے بتایا ہے کہ ایک مصیبت زدہ مسلمان کی  مدد کے لئے چند قدم چلنا میری اس مسجد میں اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version