ٹاپ سٹوریز
صدر ٹرمپ اور بائیڈن کے فیصلے کابل سے غیرمنظم انخلا اور افغان حکومت کے خاتمہ کی وجہ بنے، امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ
امریکی محکمہ خارجہ کی افغانستا سے انخلا کے متعلق رپورٹ میں صدر ٹرمپ اور موجودہ صدر بائیڈن کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کی وجہ سے امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت کی سکیورٹی خطرے میں پڑی اور فوجی انخلا کے منصوبے کے قابل عمل ہونے پر سوال اٹھے۔
محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا نام لیے بغیر تنقید کی گئی، رپورٹ میں کہا گیا کہ محکمہ خارجہ طالبان کی کابل کی جانب پیشقدمی کے دوران اپنی کرائسس مینجمنٹ ٹاسک فورس کو توسیع دینے میں ناکام رہا اور وزیر خارجہ کرائسس رسپانس کے مجموعی عناصر کو بھانپنے میں ناکام رہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے صدر بائیڈن کے انخلا کے فیصلوں کا دفاع کیا اور کہا کہ صدر کو فیصلہ کرنا تھا، امریکا ایسی جنگ میں اربوں ڈالر جھونک چکا تھا جس کا انجام نظر نہیں آ رہا تھا۔صدر اس سب کو روکنا چاہتے تھے۔
سابق صدر ٹرمپ کے ترجمان نے کہا کہ اس تباہ کن انخلا کا صرف ایک شخص ذمہ دار ہے اور وہ ہے جو بائیڈن۔
اس سے پہلے اپریل میں وائٹ ہاؤس نے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی تھی جس میں سارا الزام صدر ٹرمپ پر دھرا گیا تھا اور کہا گیا کہ انخلا کے آپریشن اور دستوں میں کمی کی منصوبہ بندی 2020 میں ہوئی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پر مارچ 2022 کی تاریخ درج ہے لیکن اس ماہ چار جولائی کو امریکا کے یوم آزادی تک اسے روکے رکھنے اور یوم آزادی سے چند دن پہلے جاری کرنے پر محکمہ خارجہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
کابل سے امریکی فوجی انخلا کے دوران امریکی شہری، اتحادی ملکوں کے حکام اور طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنے والے افغان شہریوں کی بڑی تعداد کقابل ایئرپورٹ پر جمع تھی اور ایئرپورٹ سے روانہ ہونے والے طیاروں کے ساتھ بھیلوگ لٹکے ہوئے تھے۔
انخلا کے دوران داعش نے خودکش دھماکہ کرکے 13 امریکی فوجی اور 150 سے زیادہ افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکی محکمہ ٓخارجہ نے 85 صفحات کی رپورٹ کے صرف 24 صفحات جاری کئے ہیں اور باقی رپورٹ خفیہ رکھی گئی ہے۔
رپورٹ میں کابل میں امریکی سفارتخانے کے عملے کی تعریف کی گئی ہے جس نے مشکل حالات میں فرائض نبھائے، اس وقت کووڈ پابندیاں بھی لاگو تھیں اور سکیورٹی بھی کم کی جا چکی تھی۔
اس انخلا آپریشن میں ایک لاکھ 25 ہزار افراد کو کابل ایئرپورٹ کے ذریعے افغانستان سے نکالا گیا جن میں 6 ہزار امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ امریکی فوجی 30 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تھے۔ امریکی حمایت یافتہ حکمران راہ فرار اختیار کر گئے تھے اور طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے انخلا کے فیصلوں سے افغان حکومت کا وجود اور سکیورٹی خطرے میں پڑی۔ دونوں صدور کی انتظامیہ نے انتہائی برے ترین منظرناموں کو ذہن میں نہیں رکگا اور ان منظرناموں سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا، محکمہ خارجہ کے ہنگامی منصوبوں میں رکاوٹ آئی کیونکہ واضح نہیں تھا کہ اس سب کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے۔
محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ انخلا کے پروگرام میں ان افغان شہریوں کو شامل نہیں رکھا گیا جن کو طالبان سے خطرہ تھا، یہ بھی طے نہیں تھا کہ افغان شہریوں کو نکال کر کہاں پہنچایا جائے گا۔ بائیڈن ابنتظامیہ ایسے اقدامات اور تیاری گریزاں رہی جس سے کابل حکومت پر اعتماد میں کمی کا اظہار ہو اور بعد میں کابل حکومت کے خاتمے کی وجہ بھی یہی بنی۔