Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے ملزموں کے جسمانی ریمانڈ کے لیے نئے اصول وضع کر دیئے

Published

on

The Lahore High Court sought assistance from the Attorney General on the petition against the election amendments

لاہور ہائیکورٹ نے  گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق  بڑا فیصلہ جاری کردیا، عدالتی فیصلے میں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ دینے کے لیے نئے  اصول وضع کئے گئے ہیں۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ اور جسٹس شہرام سرور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منشا بم کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف تحریری فیصلہ جاری کیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کا کمرہ عدالت میں  موجود ہونا ضروری ہے، پیشی کے بغیر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔

عدالت نے کہا کہ پولیس افسر کسی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیے بغیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا،صرف تفتیشی افسر کے بیان کو بنیاد بنا کر کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا،تفتیشی افسر کی جانب سے جب بھی ریمانڈ کی درخواست آئے تو مجسٹریٹ تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں، اپنے جوڈیشل مائنڈ کا استعمال کریں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت اپنی آبزرویشن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنائیں،مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت کیس ڈائری اور متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں،جسمانی ریمانڈ دیتے وقت مجسٹریٹ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملزم کا جرم سے تعلق بنتا ہے اور مزید تفتیش درکار ہے،تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی،ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطئمن ہونا ضروری ہے،مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے، شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کا بنیادی فرض ہے،ملک کی اعلی عدالتوں نے بھی مجسٹریٹ کی جانب سے بغیر تحقیق ریمانڈ دینے کو نا پسند کیا ہے،آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی زندگی آزادی کی تحفظ کا ضامن ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل کے مطابق دہشتگری عدالت کے جج کو ریمانڈ کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں،ڈپٹی پراسکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے،جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ایڈمنسٹریٹو جج مجسٹریٹ کی طرح ایکٹ کریں گے،ایڈمنسٹریٹو جج کو ریمانڈ دیتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی۔

عدالے نے فیصلہ دیا کہ موجودہ کیس میں ملزم کو 27 سمتبر کو جسمانی ریمانڈ کےلیے دہشتگردی کی عدالت پیش کیا گیا،پولیس ڈائری میں ملزم کی چار روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں،موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں،اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے چار مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی،بظاہر یہ لگتا ہےکہ  اے ٹی سی جج نے بغیر کیس ڈائری دیکھے لاپرواہی میں جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی،ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین