Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

الیکشن کی راہ میں آخری رکاوٹ ؟

Published

on

پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں کون رکاوٹ ڈال رہا ہے ؟ الیکشن تاخیر سے کروانا یا نہ کروانا کس کی ضرورت ہے ؟  کیا اس بار بھی اسٹبلشمنٹ ہی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ہے یا بعض سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کی خواہش مند نہیں ؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے 8 فروی کو الیکشن  پتھر پر لکیر قرار دے دئیے۔  کیا لاہور آر اوز کے بعد کوئی اور معاملہ بھی الیکشن التوا کا باعث بن سکتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت سیاسی اور صحافتی حلقوں میں گردش کررہے ہیں۔

دنیا بھر میں انتخابات اپنی مقررہ تاریخوں پر کسی بحث و تکرار کے بغیر ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہی لے لیں۔ وہاں موجودہ پارلیمنٹ کا انتخاب ہمارے 2018 کے انتخابات کے بعد ہوا۔ اور اب ان کی اسمبلی اپنی مدت کی تکمیل کی طرف جارہی ہے تو سب کو معلوم ہے کہ اپریل 2024 میں انتخابات ہونا ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں 2018 میں منتخب ہونے والی اسمبلی کی مدت رواں سال اگست میں ختم ہونے کے بعد ابھی تک کسی کو یقین نہیں کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔

ملک میں عام انتخابات کے لیے جو فریقین موجود ہیں ان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان، نگران حکومت، سپریم کورٹ آف پاکستان، سیاسی جماعتیں اور سب سے بنیادی اور اہم فریق ہماری اسٹبلشمنٹ ہے۔ ان تمام فریقین کا انتخابات کے انعقاد میں اب تک کیا کردار رہا ہے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت نے اسمبلی کو اس کی مقررہ مدت سے محض ایک روز قبل بظاہر اس لئے توڑا تھا کہ عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو ساٹھ کی بجائے نوے دن مل جائیں اور انتخابات کا انعقاد یقینی ہوجائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے آخری ایام میں مردم شماری کی جب منظوری دی گئی تو اس سے صاف نظر آگیا کہ حکومت کےاندر اور باہر کوئی ہے جو مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کی آڑ میں انتخابات کو ملتوی کرنے کا جواز حاصل کرے گا۔ مردم شماری کی منظوری پہلے بھی ہوسکتی تھی تاکہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا کام بروقت کرلیتا لیکن مردم شماری کو پہلے اعتراضات کی وجہ سے تاخیر کا شکار کیا گیا پھر حکومت کے آخری دنوں میں اس کی منظوری کیوں دی گئی؟  یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پی ڈی ایم جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون خود بھی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر پر درپردہ راضی تھیں ؟

نگران حکومتیں بننے کے بعد پیپلزپارٹی نے نوے روز میں انتخابات کے انعقاد پر سب سے زیادہ شدت سے مطالبہ کیا۔ الیکشن کمیشن پر بروقت الیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے دباؤ ڈالے رکھا لیکن انہوں نے حکومت کے آخری دنوں میں مردم شماری کے نتائج پر دستخط کیوں کئے ؟ جو الیکشن میں تاخیر کی بنیادی وجہ بن رہا ہے تو اس بات کا پیپلزپارٹی کے پاس بھی معقول جواز نہیں آیا۔

سب سے دلچسپ رویہ مولانا فضل الرحمان کا رہا۔ مخالفین کو اسلام آباد کی زمین گرم کرنے کی دھمکی دینے والے مولانا جنوری،فروری میں شدید سردی سے ڈرے ڈرے نظر آئے اور انہوں نے کبھی خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور کبھی شدید سردی کو الیکشن ملتوی کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا۔ اس سے قبل وہ اسمبلی کی مدت کو ایک سال بڑھانے کی تجویز کے بھی سب سے بڑے حامی تھے۔

مسلم لیگ نون کی بات کریں تو وہاں کبھی بھی انتخابات کے التوا کے خلاف کوئی ایک رسمی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ آئے روز سامنے آنے والے سروے ہیں جن میں تحریک انصاف کو تمام تو مقدمات اور قیدو بند کے باوجود نون لیگ پر لمبی چوڑی سبقت حاصل ہے۔ پنجاب میں بھی نون لیگ کے لیے عوامی سطح پر حالات حوصلہ افزا نہیں بتائے جاتے جبکہ خیبرپختونخوا میں تو رائے عامہ یکسر پی ٹی آئی کی طرف نظر آتی ہے۔

رہی بات تحریک انصاف کی تو وہ ہمیشہ انتخابات کا پوری شدت سے مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن ان کے ایک سرگرم وکیل کی پٹیشن نے پی ٹی آئی کو بھی اس حوالے سے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ جب عمیر نیازی نے انتظامی افسروں کو ریٹرننگ افسر تعینات کئے جانے کے عمل کو چیلنج کردیا جس کے نتیجے میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے آر اوز کی تعیناتی کو معطل کرکے انتخابی عمل کو روک دیا۔ عمیر نیازی کی پٹیشن پر جسٹس باقرنجفی کے فیصلے پر پہلے تو پی ٹی آئی نے خوشیاں منائیں لیکن جب اس پر الزام آیا کہ پی ٹی آئی بھی الیکشن التوا میں حصہ دار بن  گئی ہے تو تحریک انصاف کی قیادت نے اس فیصلے پر تنقید شروع کردی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پٹیشن سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ تحریک انصاف دراصل چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی موجودگی میں الیکشن نہیں چاہتی۔ اس لئے وہ بھی درحقیقت الیکشن کا التوا ہی چاہتی ہے۔

 طے شدہ نوے دن کی  آئینی مدت گذرتی نظر آئی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے انتخابات کے حوالے سے کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان کروایا اور پھر کہا کہ اسے اب پتھر پر لکیر سمجھا جائے۔ اس بات سے ایسا لگا کہ جیسے ہماری عدلیہ نے آئین پر عمل درآمد کروانے کی ٹھان لی ہے اور اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ انتخابات کا راستہ روک سکے لیکن عدلیہ کے اندر سے ہی لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے پی ٹی آئی کے ایک وکیل عمیر نیازی کی پٹیشن پر ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی کو معطل کرکے انتخابی عمل کو عملا روک دیا۔ جسٹس باقر نجفی کے اس حکم نامے پر بہت تنقید ہوئی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی راہ میں  ہائیکورٹ کا ایک جج کیسے رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ شفاف انتخابات کی بنیاد پر دائر ہونے والی پٹیشن میں جسٹس باقرنجفی انتخابات کو روک چکے تھے۔  تاہم سپریم کورٹ نے ان کے احکامات کو معطل کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آر اوز کی تعیناتی سمیت تمام اقدامات جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔

نگران حکومتوں کو دیکھیں تو ان کے ورکنگ سٹائل سے وہ کبھی بھی نگران نظر نہیں آئیں۔ طویل مدت پالیسیز، بڑے بڑے معاشی فیصلے اور خارجہ محاذ پر منتخب حکومتوں سے بھی زیادہ سرگرمیوں نے ہمیشہ ان کے طویل قیام کی چغلی کھائی ہے۔

اب اگر بات کریں اسٹبلشمنٹ کی تو وہاں سے ابھی تک بظاہر کھل کر الیکشن نہ ہونے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ لیکن مردم شماری میں تاخیر، تحریک انصاف کے خلاف کاررواءیوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کے بعد جو کچھ سوچ رہی ہے وہ اسٹبلشمنٹ ہی ہے۔

اب اگرچہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد بظاہر انتخابات میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تاہم افواہوں کا بازار اب بھی گرم ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی باغیانہ کارروائیاں ملک کے اندرونی سکیورٹی معاملات کو سنجیدہ کررہے ہیں۔

صوبوں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے پولیس فورس کی کمی کی شکایت کی ہے۔ ماضی میں فوج اور رینجرز الیکشن کے دوران سکیورٹی کا فریضہ ادا کرتے رہے ہیں لیکن اب دو صوبوں میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر دیکھنا ہوگا کہ کیا وزارت دفاع اضافی سکیورٹی کے لیے اپنے جوان فراہم کرتی ہے یا نہیں۔ عوام کے حق رائے دہی کا آئینی حق ملنے میں اب یہ ایک آخری رکاوٹ رہ گئی ہے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین