Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

نئی حکومت کاسٹنگ ووٹ پر بنے گی!

Published

on

سیاسی کہاوت ہے کہ آج کے حکمران کل کے حزب اختلاف اور اسی طرح حزب مخالف آئندہ کی حکمران ہوسکتی ہے. اس کہاوت کو سامنے رکھیں تو ملک میں ہونے والے لگ بھگ تمام انتخابات کے نتائج اسی کے اردگرد گھومتے ہیں لیکن اس مرتبہ کے انتخابات میں یہ  سوال کسی معمہ سے کم نہیں ہے کہ آئندہ اپوزیشن میں کون ہوگا اور وزارت عظمیٰ کس کے حصے میں آئے گی؟

نو مئی کے واقعات کے بعد سیاسی منظر مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے.  حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں انتخابات میں انفرادی حیثیت میں حصہ لینے کیلئے اپنی اپنی انتخابی مہم ترتیب دے رہی ہیں اور آج کے اتحادی ایک دوسرے مدمقابل ہونگے۔

حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی دوبئی میں بیٹھک ہوئی اور یہ بتایا  گیا کہ “سب اچھا  ہے” پر اس کا اختتام ہوا لیکن کچھ ایسا اعلامیہ ابھی جاری نہیں ہوا جو سب اچھا کی گردان پر پورا اترتا ہو. خبروں کے مطابق  طرفین کے رہنماؤں  سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نے  کئی  امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ملاقات کی. ان اہم امور میں سے ایک نگران سیٹ اَپ کیلئے مجوزہ ناموں کو حتمی شکل دینا تھی اور دوسرا آئندہ انتخابات میں دونوں جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں تو کس کو کونسا عہدہ ملے گا۔

اسی طرح نئی کنگز پارٹی استحکام پارٹی اور سابق کنگز پارٹی مسلم لیگ قاف بھی اسی کوشش میں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی الیکٹیبلز کے سر پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کامیاب ہو جائے اور نئی حکومت کے حامی بن جائیں لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی پارٹی اور الیکٹیبلز میں فرق ہوتا ہے. عوامی پارٹی محدود نہیں ہوتی اس کے برعکس الیکٹیلز کی مقبولیت عوامی نہیں ہوتی ہے۔

ادھر مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ  آئندہ  انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے تو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کام کریں گے. کیا سابق وزیر اعظم کا یہ بیان اس اندیشے کو ظاہر کرتا ہے کہ انتخابی عمل میں ووٹوں کے علاوہ بھی بھی کسی اور طریقہ کار سے اقتدار میں آیا جاسکتا ہے؟

نواز شریف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مسلم لیگ نون اور  پیپلز پارٹی کی اعلیٰ مرکزی قیادت کی دوبئی میں بات چیت کا ایک دور ختم ہوا۔

اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے علاوہ حال ہی میں جنم لینے والی جماعت استحکام پارٹی بھی اپنے رہنما کو وزیر اعظم دیکھ رہی ہے. سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ ملے. مسلم لیگ نون نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے جبکہ نومولود جماعت استحکام پارٹی کے اہم رہنما علیم خان نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں جہانگیر ترین کا نام وزیر اعظم کے عہدے کیلئے لیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کو نظر انداز کرکے تین صوبوں کے سر پر وزارت عظمی حاصل کرسکتی ہے؟ کیا نواز شریف ایک ایسی اسمبلی میں قائد ایوان بنا پسند کریں گے جس میں کسی جماعت کے پاس سادہ اکثریت نہ ہو اور انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کے کھل کر حصہ نہ لینے کی وجہ سے اس پر سوالیہ نشان ہو؟ کیا  یہ ممکن ہے کہ نئی نئی جماعت کا عوامی مقبولیت کے بغیر ہی دو بڑی جماعتوں کی موجودگی میں انتخابات میں اتنی اکثریت لینا کہ وہ وزارت عظمی کی دوڑ میں شامل ہوسکے؟

اگر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں کوئی اتفاق رائے ہوتا ہے پھر یہ سوال ہے پیپلز پارٹی وزرات عظمی سے دستبردار ہوتی ہے یا مسلم لیگ نون؟ کیا وزیر اعظم شہباز شریف کو ہی دوبارہ وزیر اعظم چن لیا جاتا ہے یا پھر ان کیساتھ کسی کو ڈپٹی پرائم منسٹر  بنایا جاتا ہے جیسے پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر اعظم پرویز اشرف کے ساتھ پرویز الہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا تھا۔

یہ فیصلے کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ مفادات کا براہ راست ٹکراؤ ہے اور اس پر سمجھوتے کے بغیر کوئی راستہ نہیں نکل سکتا. یہ بات ضرور ایمت کی حامل ہوگی کہ نئی جماعت عام انتخابات میں کتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوتی ہے اور ان کا جھکاؤ کس کی طرف ہوتا ہے اور بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے؟ سیاسی سوج بوجھ کرنے والے اس بات کا اندیشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ 2008 میں جس طرح سیٹ اپ قائم کیا گیا تھا عین ممکن ہے کہ اسطرح کا سیٹ اپ ابھی قائم کر دیا جائے. اس طرح مسلم لیگ نون کے پاس پنجاب رہے گا اور وزارت اعلی پر شریف خاندان کا کوئی فرد براجمان ہو جائے۔

اس طرح ایک مضبوط اپوزیشن سامنے آسکتی ہے اس سے قومی اسمبلی اور عام انتخابات کی حیثیت مشکوک نہیں رہے گی. مسلم لیگ نون کیلئے پنجاب پر اپنی راج دھانی کو قائم کرنا کسی وزارت عظمی سے کم نہیں ہے۔ 1985 سے اب تک تین مواقع آئے ہیں جب  شریف خاندان کی پنجاب میں حکومت نہیں تھی. پہلے 1993 میں جب پہلے منظور وٹو اور پھر عارف نکئی، اس کے بعد 2002 میں پرویز الہی کی وازات اعلیٰ رہی اور 2018 میں پہلے سردار عثمان بزدار اور پھر پرویز الہی نے وزارت اعلیٰ سنبھالی۔

کیا بڑا ووٹ بینک رکھنے والے جماعت تحریک انصاف کو انتخابات میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ ایک رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو اپوزیشن کرنے کیلئے اتنی ہی نشستیں مل سکتی ہیں جتنی 1997 میں پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں ملیں تھیں. بینظیر بھٹو 17 نشستوں کیساتھ اپوزیشن لیڈر چنی گئیں۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں ہی اہنی مرکزی قیادت یعنی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے بغیر ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچز پر بیٹھے تھے اور قائد حزب اختلاف ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان کو ملی تھیں. یہ وہی اسمبلی تھی جس میں تحریک انصاف کے سربراہ ایک نشست کیساتھ اسمبلی میں تھے. وہ پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

تمام صورت حال اپنی جگہ، لیکن ایک فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کا ہوگا کہ وہ کس طرح کے سیٹ اپ کی حامی ہے اس لیے اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ یا جھکاؤ بالکل اسی طرح ہوگا جیسے کاسٹنگ ووٹ ہوتا ہے؟

یہ حتمی فیصلہ ہی تعین کرے گا کہ کون وزیر اعظم ہوگا اور کون قائد حزب اختلاف بنے گا؟ جیسے حکومت کیلئے وزیر اعظم ضروری ہے اسی طرح اسمبلی میں اپوزیشن کے کردار سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین