Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

پانی کو ترستے جیکب آباد کے عوام،سوا 2 ارب روپے کا امریکی منصوبہ بھی انتظامی غفلت کا شکار

Published

on

صبح سویرے کا وقت ہو یا رات کا سما حجام کے کاریگر 50 سالہ خادم حسین، 40 سالہ اسکول ٹیچر فیض محمد، اور تین بچوں کی ماں 35 سالہ، شبانہ بیگم کی اہم پریشانی اور انتظار یکساں ہی رہتا ہے۔۔۔۔

 جبکہ ان کا آپس میں دور دور تک کوئی تعلق بھی نہیں ان تینوں کے علاقے اور زبانیں بھی مختلف ہیں۔۔۔

شبانہ بیگم، حجام اور استاد سب کی پریشانی گدھا گاڑی اور چنگچی۔۔۔۔

50 سالہ خادم حسین جوکہ کہ حجام  ہیں ان کی دوکان بس اڈے کے سامنے واقع ہے، جب مسافر بسوں سے اتر کر اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہورہے تھے تب دو مسافر حجام خادم حسین کی سیلون میں داخل ہوئے مگر خادم حسین اپنی دوکان سے غائب اور سڑک پر گدھے گاڑی اور چنگچی رکشہ کو ڈھونڈنے میں مصروف تھے، اسی دوران خادم حسین کی نظر اپنی دوکان پر پڑی جہاں گاہک ان کا انتظار کر رہے تھے گاہکوں نے سیلون سے بال اور شیو بنوا کر نہانا تھا مگر خادم حسین پریشانی کے عالم میں گدھے گاڑی یا چنگچی رکشہ کا مزید انتظار کرتے رہے۔۔۔

یہی حال 35 سالہ شبانہ بیگم کا تھا وہ اپنے دروازے پر کھڑی ہو کر گھر کے باہر گدھے گاڑی یا چنگچی رکشہ کی راہ دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اسے خاوند کے لئے کھانا بنانا ہے  کپڑے بھی دھونے ہیں اور بچے بھی اسکول سے آنے والے ہیں، مگر گدھا گاڑی اور چنگچی رکشہ دور دور تک دیکھائی نہیں دے رہے تھے

شام کے چھ  بج رہے تھے 40 سالہ اسکول ٹیچر فیض محمد بھی بے چینی کے عالم میں اپنے گھر کے باہر ٹہل رہے تھے اور گدھا گاڑی یا چنگچی رکشہ کے منتظر تھے اور بار بار کسی کو فون کرتے رہے مگر دوسری طرف سے فون شاید نہیں لگ رہا تھا ،فیض محمد کے ہاں کچھ مہمان رات کے کھانے پر مدعو تھے لیکن گھر میں پینے کا پانی ختم ہوگیا تھا۔

50 سالہ خادم حسین، 40 سالہ اسکول ٹیچر فیض محمد اور تین بچوں کی ماں شبانہ بیگم کی پریشانی اور گدھے گاڑی یا چنگچی رکشہ کا انتظار ایک جیسا ہی ہے کیوں کہ ان کے پاس پانی کی سپلائی نہیں آتی۔

حجام خادم حسین کو اپنے گاہکوں کے چلے جانے کا خدشہ ہے تو شبانہ بیگم کو کھانا بنانے کپڑے دھونے اور اسکول سے آئے بچوں کو نہلانے کی پریشانی ، اسکول ٹیچر پریشان ہے کہ مہمانوں کے آنے کا وقت ہوتا چلا جارہا اور ان کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوست بھی کرنا ہے لیکن پینے کے پانی کپڑے دھونا کھانا بنانا اور نہانے کے لئیے میٹھے اور صاف پانی کے حصول کا صرف ایک واحد ذریعہ گدھا گاڑی یا چنگچی رکشہ ہے ایسی پریشانی انہیں مہینے میں کئی بار جھیلنا پڑتی ہے۔

تاریخی شہر کا قدیمی مسئلہ

گدھا گاڑی یا چنگچی رکشے 14 لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع جیکب آباد میں پینے کے پانی کی ترسیل  کے ذرائع  ہیں۔جیکب آباد ضلع سندھ بلوچستان کے سنگم پر قائم ہے اور پنجاب کا بارڈر بھی اس ضلع سے ملتا ہے اس لیے یہ ضلع سندھ کے آخری ضلع   کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

 جیکب آباد شہر ہویا اس کی تین تحصیلیں ( ٹھل، تحصیل گڑھی خیرو اور جیکب آباد) سڑکوں پر زیادہ تر پانی کی ٹینکیوں سے لدی گدھا گاڑیاں اور شور مچاتے چنگچی رکشا نظر آتے ہیں،مگر یہ پانی بھی انتہائی آلودہ اور صحت کے لیے مضر ہے۔زمانہ جدید میں بھی جیکب آباد کے عوام پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، تحصیل ٹھل، تحصیل گڑھی خیرو، اور جیکب آباد میں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے اور آلودہ پانی پیسوں پر خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔۔۔۔

جیکب آباد ضلع تاریخی حیثیت اور سیاسی اثر رسوخ بھی رکھتا ہے ،برطانوی دور حکومت میں اس ضلع کو خان گڑھ کے نام سے پہچانا جاتا تھا، 1843 برطانوی حکومت نے جنرل جان جیکب کو سندھ اور بلوچستان کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا تھا، جنرل جان جیکب نے اپنے قیام کے لیے خان گڑھ کا انتخاب کیا اور ضلع کی ترقی اور خوشحالی کے لئیے بڑے پیمانے پر کام کیے ۔  1848 میں ان کی وفات کے بعد انہیں خان گڑھ یعنی جیکب آباد کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا گیا یہ جنرل جان جیکب کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ضلع کا نام خان گڑھ سے جیکب آباد رکھ دیا گیا۔

جیکب آباد ضلع 2686 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اس ضلع میں قومی مردم شماری کے مطابق 1425572 لوگ مقیم ہیں جس میں سے 24 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے جبکہ ضلع کا صدر مقام جیکب آباد ہے۔

اس ضلع میں پانی کا مسئلہ  تب ہوا جب یہاں کا زمینی پانی کھارا ہوگیا۔  1985 سے قبل یہاں کے لوگ پینے کا صاف پانی پینے اور دیگر استعمال کے لئیے ہینڈ پمپس کا استعمال کیا کرتے تھے جوکہ اکثر گھروں میں نصب ہوا کرتے تھے، وقت گزرنےکے ساتھ  میں شہر کی زمین کا پانی کھارا ہوتا چلا گیا اور استعمال کے قابل نہ رہا ، شہر اور اس کی قریبی کچھ علاقوں میں زمین سے میٹھا پانی اب بھی آتا تھا مگر نالیوں کا پانی زمینی پانی میں شامل ہونے کے سبب یہ پانی آلودہ ثابت ہوا۔

جیکب آباد شہر کے 90 فیصد علاقوں کا پانی کھارا ہونے کے بعد پانی کی ترسیل کا عمل گدھا گاڑیوں کے ذریعے ہونے لگا پانی کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے کثیر تعداد میں لوگوں نے گدھا گاڑیاں خرید کر پانی فروخت کرنا شروع کر دیا اور  یہ سلسلہ اب چنگچی رکشوں کے زریعے بھی جاری ہے۔

امریکی امداد سے ترسیل آب کے منصوبے کا حشر

جیکب آباد شہر میں پینے کے صاف پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سوا ایک ارب روپے کی لاگت سے فراہمی آب کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا  جو سیاسی مداخلت، عدم توجہی، کرپشن کے باعث  ناکام ثابت ہوا۔

2012 میں یو ایس ایڈ کی جانب سے سوا دو ارب روپے کی لاگت سے دوبارہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبہ پر کام شروع کیا گیا مگر منصوبہ مکمل ہونے تک یہ رقم سوا دو ارب روپے سے تجاوز کر کے ساڑھے تین ارب روپے تک پہنچ گئی۔

جیکب آباد امریکی سماجی ادارے یو ایس ایڈ کی جانب سے فراہمی آب کے منصوبے کو کامیاب کرنے کے لئیے  کھیر تھر کینال کا  انتخاب کیا گیا جس میں سے تین جھیلوں میں 360 ملین گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی گئی اور کھیر تھر کینال پر واٹر پلانٹس لگا کر شہر سے 24 کلومیٹر کے فاصلے تک پائپ لائن بچھائی گئی اور فلٹر پلانٹس بھی نصب کیے گئے ۔یو ایس ایڈ کے مطابق 7 دن میں 24 گھنٹے پانی کی سپلائی کو ممکن بنانے کے لئے واٹر پلانٹ نصب کیا گیا جس کو چلانے کے لئیے دو بیک اپ (100 kva) اور (700 Kva)  کے جنریٹرز بھی نصب کیے گئے۔ شہر بھر میں پانی کی سپلائی کو ممکن بنانے کے لیے یو ایس ایڈ کی جانب سے 6 زون بنائے گئے جس میں آٹھ یونین کونسل شامل ہیں جس کے لئے (315 Kva) کے جنریٹرز لگائے گئے تاکہ  شہریوں کو پینے کے صاف پانی سپلائی ممکن ہو سکے۔

یو ایس ایڈ کی جانب سے جیکب آباد کے شہریوں کو 12,005 کنکشن فراہم کیے گئے ہیں۔ یو ایس ایڈ کے مطابق پانی سپلائی کی رکاوٹ بجلی کی قلت ہے جس کو دور کرنے اور پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لئیے بجلی کی ضرورت ہے۔

مقامی انتظامیہ کی عدم دلچسپی

یو ایس ایڈ کے مطابق واٹر سپلائی اسکیم کو چلانے کے لئیے ڈپٹی کمشنر (کنوینر)، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ممبر) کے سمجھوتہ، اکیڈمی کا نمائندہ (2 نامزد ممبران)، این جی او کا نمائندہ (نامزد ممبر)، محلہ واش کمیٹی کا نمائندہ (2 نامزد اراکین) اور سی ایم او (سیکرٹری) واٹر سپلائی اسٹیئرنگ کمیٹی پالیسی فیصلے کر کے باقاعدہ رپورٹنگ کے ذریعے موثر نگرانی کو یقینی بنائے گی اور کمیٹی اہداف کا تعین کرے گی۔ جیکب آباد میں واٹر سپلائی کے تعمیل کمیٹی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کرے گی اور واٹر سپلائی کے نفاذ کی صورتحال اور مسائل پر تبادلہ خیال کرے گی، اور واٹر سپلائی کی کامیاب تعمیل کو یقینی بنائے گی۔

مگر 2 سال گزر جانے کے باوجود ضلع انتظامیہ کی جانب سے پانی کی فراہمی میں مشکلات اور دیگر مسائل پر کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا نہ ہی اس منصوبے کو چلانے کے لئیے اب تک  یو ایس ایڈ کی دی گئی ہدایات پر عمل کیا جارہا ہے شہری اب بھی اس منصوبے کے تحت پانی کی ترسیل سے محروم ہیں۔۔۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر واٹر سپلائی کا پانی آتا بھی ہے تو وہ بھی شہر میں گدھا گاڑی اور چنگچی رکشہ کے ذریعے فروخت ہونے والے پانی کی طرح ہی آلودہ ہے کیوں کہ تمام زون میں آنے والے پانی میں نالیوں کا پانی شامل ہوتا ہے جوکہ پینے اور غسل کے قابل نہیں رہتا۔

ترسیل آب کا جامع پلان مگر عمل نہیں ہوا

جیکب آباد ضلع کا صدر مقام اور جیکب آباد کا مرکز سندھ میں 9 ویں نمبر پر ہے شہر کو آٹھ یونین کونسلز (UCs) میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی سومرا محلہ، لاشاری محلہ، شاہ غازی محلہ، ڈراکھن محلہ، پھول باغ، موچی بستی، جعفرآباد محلہ، اور دستگیر کالونی، جو میونسپل کے زیر انتظام چلتی ہیں۔ جیکب آباد شہر کی آبادی 191,076 افراد پر مشتمل ہے۔ اس اسکیم کو آٹھ یونین کونسلوں میں شامل کیا گیا ہے 122.5 ملی میٹر جیکب آباد شہر کا زمینی پانی زیادہ تر علاقوں میں نمکین ہے۔ آلودہ، اور انسانی استعمال کے لیے نا مناسب ہے۔ جیکب آباد کے نئے اپ گریڈ شدہ واٹر سسٹم کے لیے ایک جامع واٹر سیفٹی پلان واٹر سپلائی شہر کو اپنے آپریشن کے دوران صاف پانی کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے یہ مسودہ “واٹر سیفٹی پلان یو ایس ایڈ نے تیار کیا ہے جو کہ اب دو سال سے میونسپل کارپوریشن جیکب آباد کے حوالے ہے۔

ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے منصوبے کو چلانے اور اس کی نگرانی کے لئیے یو ایس ایڈ کی جانب سے پلان جاری کیا گیا تھا جس میں (01) سول انجینئر، پلمبنگ، لائن مینٹیننس کے لیے (08) پلمبرز اوور ہیڈ ریزروائرز (OHRs) بھرنے اور تقسیم کرنے کے لیے (09) وال مین، پانی کی تقسیم کی لائن پر گشت کے لیے (03) پٹرولنگ افسران اور پاور لائن لو لفٹنگ پمپ (LLP) کے لئیے (02) آپریٹرز  ہائی لفٹنگ پمپ (HLP) کے لئیے (02) آپریٹرز  پلانٹ کے آپریشن کے لیے پلانٹ پمپ آپریٹرز اور منسلک سرگرمیاں پانی کے نمونے لینے اور لیبارٹری تجزیہ کے لیے (03) لیب ٹیکنیشنز پلانٹ کی نگرانی کا پلانٹ شفٹ انچارج، (03) چوکیدار (01)اضافی عملہ واش ریونیو آفیسر (01) ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر سب انجینئر (01 واٹر سپلائی، مقرر کئیے گئے میونسپل کارپوریشن جیکب آباد اس پر عملدرآمد کرنے میں مکمل ناکام ہے جس کے باعث اس منصوبے کے تحت پانی کی سپلائی متاثر اور ناکارہ ہے۔۔۔

جیکب آباد کے شہریوں کے لیے واٹر سپلائی اسکیم کے ذریعے پینے کی صاف پانی کے ترسیل کے 6 زون بنائے گئے جس میں پانی کی 06 بڑی ٹینکیاں بنائی گئی (زون نمبر 01) 37.1 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں پولیس فورس گرائونڈ، افضل خان کھوسہ روڈ، شیخ محلہ، ڈرکھن محلہ، صرافہ بازار، پیر بخاری، حق بابو محلہ، قلاتی خان بروہی، سومرو گوٹھ، احمد میاں سومرو گوٹھ، گوٹھ غلاب ماچھی شامل ہیں (زون نمبر 02) 20 کلومیٹر پر مشتمل جس میں بس اسٹینڈ، بروہی محلہ، سینیما روڈ، عید گاہ محلہ، صدر بازار، دنگر محلہ، لاشاری محلہ، کوئٹہ روڈ، گڑھی سبھایو، مولا داد کراسنگ ایریا، موچی بستی شامل ہے، ( زون نمبر تین) جوکہ 30 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں ٹی ایم اے روڈ، سول ہسپتال روڈ، پی ٹی سی ایل کالونی، دستگیر کالونی، سینٹ جان سکول، ایس پی ہائوس روڈ، سول کورٹ، شہباش کالونی پورانی مال پڑی، مسجد پیر بخآری ایریا، شیخ عبد النبی روڈ، فیملی لائین، ڈی سی آفیس روڈ، افضل خان کھوسہ روڈ، قائد اعظم روڈ،  شاہ غازی محلہ، بانو بازار، صدر بازار، لاشاری محلہ، پوسٹ آفیس روڈ شامل ہے، (زون نمبر 04) جوکہ 14.4 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں  موچی بستی، اللّٰہ آباد کالونی، ریلوے کوارٹر، غریب آباد محلہ، کرسچین کالونی، مختیار کار روڈ، کوئٹہ روڈ ایریا، واپڈا کالونی شامل ہیں، (زون نمبر 05) 26 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں نمائش گرائونڈ،  شکار پور روڈ، چنہ محلہ، واپڈا کالونی ایریا، میر عظمت خان روڈ، کریم آباد، بھٹائی کالونی، سینٹرل جیل روڈ، گوٹھ جانو بیلو، جت محلہ، جعفر آباد، شامل ہیں، (زون نمبر 06 ) جوکہ 20 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں سرکٹ ہاؤس روڈ، مارکیٹ پولیس اسٹیشن روڈ، اے ڈی سی کالونی، چنہ محل ایریا، جمس ہسپتال روڈ، بسم اللّٰہ باغ، پھول باغ روڈ، میر عظمت خان ایریا، پھنور روڈ، شامل ہیں۔

شہری قصوروار ٹھہرا دیئے گئے

جیکب آباد میونسپل کارپوریشن کے سی ایم او نصر اللّٰہ سرکی نے  بتایا کہ یو ایس ایڈ نے منصوبہ 80 فیصد مکمل کر کے میونسپل کے حوالے کیا ہے پانی کی ترسیل میں سب سے بڑا مسلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور الگ فیڈر کا نہ ہونا ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ پانی کی ترسیل کے دوران نالیوں کا پانی شامل ہونا شہریوں کی خود کی غلطی ہے انہوں نے شہریوں کو قصوروار قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہری پائپ لائن خراب ہونے کی صورت میں نجی نان پروفیشنل پلمبر سے کام کرواتے ہیں جس کی وجہ سے پائیپ لائن ڈیمیج ہوتی ہیں اور واٹر سپلائی کے منصوبے کے تحت ترسیل ہونے والے پانی میں نالیوں کا پانی بھی شامل ہو جاتاہے ہے ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ خود سے کام کروانے کے بجائے اپنی شکایات دفتر میں درج کروائیں اس حوالے سے یو ایس ایڈ کا کہنا ہے کہ ہمنے تمام زون مکمل کر کے میونسپل کارپوریشن کے حوالے کر دیئے ہیں کچھ محلوں میں پائپ لائن کی خرابی اور کنیکشن کا کام جاری ہے جوکہ جلد مکمل کر لیا جائے گا۔اوردو کرانیکل نے عوامی مسلے کے متعلق جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر محمد یوسف شیخ سے موقف لینے کے لئیے رابطہ کیا مگر انہوں نے اپنا موقف اختیار کرنے کے انکار کردیا۔

جیکب آباد میں گزشتہ 14 سالوں سے ساڑھے پانچ ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود فراہمی آب کے یہ منصوبے شہریوں کے لئیے مستفید ثابت نہ ہوسکے۔

سندھ حکومت نے منصوبہ ناکام بنایا، محمد میاں سومرو

2018 کے عام انتخابات میں عوام نے تحریک انصاف کے امیدوار (حلقہ این اے 196 سردار محمد میاں سومرو) اور (پی ایس 01 محمد اسلم ابڑو کو منتخب کیا ) فراہمی آب کے منصوبے پر رکن صوبائی اسمبلی اسلم ابڑو کا کہنا تھا کہ یو ایس ایڈ نے ناقص  کام کیا ہے اور کرپشن کی ہے، اس  وجہ سے واٹر سپلائی کی اسکیم شہریوں کو پانی فراہم کرنے میں ناکام ہے۔

دوسری جانب 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی سردار محمد میاں سومرو جوکہ ماضی میں قائم مقام صدرِ پاکستان، نگران وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، گورنر سندھ، جیسے عہدوں پر فائز رہے ہیں انہوں نے اورد کرانیکل کو بتایا کہ یو ایس ایڈ صرف پانی کے منصوبے پر کام نہیں کر رہی بلکہ سیوریج کا پروجیکٹ شہر بھر میں سولر لائٹس اور انسٹیٹیوٹ میڈیکل آف سائنس کالج کھولنے کے پروجیکٹ دے چکی ہے۔ انہوں نے اردو کرانیکل کو مزید بتایا کہ میں 2018 میں پہلی بار الیکشن حصہ لیکر کامیاب ہوا ہوں 18 ویں ترمیم کے باعث صوبے خود مختار ہیں۔ یو ایس ایڈ کو اپنے تعلقات کی بنا پر ایسے پراجیکٹ لانے کی اپیل کی تھی جن کو انہو ں نے قبول کر کے ایسے پراجیکٹ اس شہر کو دیئے ، لیکن  صوبائی حکومت میں موجود لوگوں نے ان پراجیکٹ کو فیل کر دیا ہے۔ 2018 سے ہماری حکومت میں یو ایس ایڈ کی اس اسکیم میں سندھ حکومت ان کے ساتھ کام کر رہی تھی۔

500 روپے ماہانہ فیس لیکن پانی نہیں ملتا

اردو کرانیکل کی جب جیکب آباد کے شہری سیاسی سماجی اور سول سوسائٹی کے افراد سے پانی کے اس اہم مسئلے پر بات ہوئی تو شہریوں کا کہنا تھا کہ فراہمی آب کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر  کرپشن ہوئی ہے، ناکارہ کام کرنے کے باعث پانی کی سپلائی متاثر ہے کچھ دن پانی کی سپلائی ہوتی ہے تو ایک ایک ماہ تک پانی کی سپلائی روک دی جاتی ہے ۔

شہریوں نے مزید بتایا کہ اربوں روپے کی لاگت سے فراہمی آب کا منصوبہ شہریوں کے لئیے مفید ثابت نہیں ہو سکا ہے، اگر پانی آتا بھی ہے تو وہ استعمال کے قابل نہیں ہے، ہماری شکایات کا کوئی ازالہ نہیں ہوتا، انتظامیہ کہتی ہے کہ آپ لوگ اسے خود ٹھیک کروا لیں۔ شہریوں نے یہ بھی بتایا کہ پانی کی فراہمی کی 500 ماہانہ فیس بھی مقرر کی گئی ہے۔

دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے فراہمی آب کے منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے فنڈز بھی مستحکم کیے گئے ہیں اور 12 ہزار سے زائد کنکشن میں فی کس 500 روپے میونسپل ماہانہ فیس بھی رکھی گئی ہے، اس کے باوجود بھی یہاں کے شہری پینے کے صاف پانی سے اب تک محروم ہیں۔ شہریوں کا مزید کہنا ہے کہ سیاسی مداخلت، سیاسی حریفوں سے انتقامی کارروائی جیسی پرانی روایت کے باعث شہری ان منصوبوں کے تحت فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں اور ان ہی کی وجہ سے یہ منصوبے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ جیکب آباد کے شہری آج بھی گدھا گاڑی اور چنگچی رکشوں کے زریعے آلودہ پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں، جس کے باعث اس علاقے کے لوگ کثیر تعداد میں یرقان اور مختلف پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا پائے جاتے ،ہیں ڈاکٹروں اور ماہرین کے مطابق پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث ہی یہاں کے لوگ یرقان  اور دیگر پیٹ کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

گدھا گاڑی والوں کے کین بیماریاں پھیلانے لگے

 ڈاکٹر اے جی انصاری نے اردو کرانیکل کو فون پر بتایا کہ ایک نجی سماجی ادارے کی جانب سے گدھا گاڑی اور چنگچی رکشہ کے ذریعے فروخت ہونے والے پانی پر رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق یہاں کا زمینی پانی پینے کے لئیے انتہائی خطرناک ہے، ڈاکٹر اے جی انصاری کا کہنا ہے کہ ہم نے اس پراجیکٹ کے ذریعے پانی کی فراہمی کو مکمل طور پر مثبت اندازمیں اس کی فراہمی کی تحریک بھی چلائی تھی ،جھری کین کے زریعے ملنے والا پانی آلودہ ہے اور انتہائی خطرناک ہے ۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹینکیوں سے لدی گدھا گاڑیوں پرپانی کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے جھری کین ایک بار دکان سے خریدنے کے بعد کبھی صاف نہیں کیے جاتے اور پانی فروخت کرنے والے ان کو کو کبھی صاف کرنے کا بھی نہیں سوچتے ،جن ٹینکیوں سے پانی بھرا جاتا ہے وہ بھی کبھی صاف نہیں ہوتیں، ہمیشہ ٹینکیوں اور نیلے کلر کے جھری کینوں میں سبز کائی جمی ہوتی ہے۔  ڈاکٹر اے جی انصاری کا مزید کہنا تھا کہ ایسے آلودہ پانی کے استعمال سے یہاں کے لوگ یرقان اور دیگر پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 شہریوں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ ساڑھے پانچ ارب روپے کی خطیر رقم سے بنائے گئے فراہمی آب کے منصوبوں میں بدعنوانیوں اور ان کے بیچ رکاوٹ بننے والے کے خلاف کارروائی عمل میں لاکر اس منصوبے کو بلا تفریق کے چلایا جائے تاکہ یہاں کہ شہری پانی جیسی بنیادی سہولیات حاصل کر سکیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین