Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

مذہبی جماعتوں کا سیاسی مستقبل؟

Published

on

رواں سال کم و بیش دنیا کے 60 ممالک میں ہونے والے انتخابات نے جس طرح مغربی جمہوریت کی کبریائی حیثیت کو بے نقاب کیا،اسی طرح پاکستان کے حالیہ الیکشن میں دینی جماعتوں کی شکست فاش نے مذہبی سیاست کے مستقبل کو بھی تاریک بنا دیا، حالات کی سرکش لہروں نے مذہبی جماعتوں کی منجمد تنظیمی ساخت، فرسودہ نظریات اور مضمحل سیاسی وجود پہ کئی سنجیدہ سوالات اُٹھا دیئے،بظاہر یہی لگتا ہے کہ مستقبل کے عالمی نظام میں مذہبی تحریکوں کا کردار مزید سکڑ جائے گا،چنانچہ دینی جماعتوں کو اپنی بقا کی خاطر دم توڑتی لبرل جمہوریت کا ہاتھ جھٹک کر اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر تحریری مواد کی بجائے ڈیجیٹل میڈیا سے ہم آہنگ صوتی و عکسی پیغامات و خطبات پہ مبنی نئے مذہبی شعورکی آبیاری کی ضرورت پڑے گی۔

عالمی سطح پر، مغربی لبرل جمہوریت کی پسپائی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والاخلا مسلم ممالک میں خلافت کے قیام کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ انہیں وسیع تراسلامی وفاق قائم کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔مغرب خاص کر امریکہ کے مڈویسٹ میں تیزی سے معدوم ہوتے سفید فام طبقات میں جوں جوں صفحہِ ہستی سے مٹ جانے کا خوف بڑھ رہا ہے،تُوں تُوں وہاں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت جمہوری آزادیوں اور آئینی نظام کو پیچھے دھکیلتی نظر آتی ہے،امریکہ میں تیزی سے اُبھرتا پاپولزم ایک قسم کے جدید استبدادی نظام کے قیام کی خبر دے رہا ہے۔ لاریب،مغرب کو اندر سے یہ احساس گُھن کی طرح کھائے جا رہا ہے کہ جمہوری آزادیوں اور مارکیٹ اکانومی سے فائدہ اٹھا کر ایشیائی لوگ بہت جلد انکی دولت اور اقتدار پہ قبضہ کر لیں گے، اس لئے وہ جمہوریت کی دلفریب چکاچوند سے نکل کر چینی ماڈل کی سفاک استبدادیت میں اپنی بقا تلاش کرنے لگے ہیں۔

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے پارلیمنٹ سے اپنے الوداعی خطاب میں کہا تھا ” وہ اگلے پچاس سالوں میں عظیم برطانیہ پہ ایشین لوگوں کی حکومت دیکھ رہے ہیں“ ٹونی بلیئر کو گزرے ابھی بیس سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ برطانیہ کا اقتدار پکے ہوئے پھل کی مانند ایشیائی باشندوں کی جھولی میں آ گرا ہے ۔اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ یورپ و امریکہ میں افریقی اور ایشیائی لوگوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد بہت جلد وہاں آبادی کا تناسب بدل دے گی، چنانچہ مٹ جانے کے اسی خوف کی وجہ سے مغربی اقوام اب لبرل جمہوریت، مارکیٹ اکانومی اور بنیادی انسانی حقوق کے جھنجھٹ سے نجات کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں۔لہذا گوبل پیراڈائم شفٹ کے اسی نازک مرحلہ میں مذہبی تحریکیں اسلامی خلافت کے اس تصور کی نشاة ثانیہ ممکن بنا سکتی ہیں،جس کی بساط مغربی استعمار نے پہلی جنگ عظیم کے بعد1921 میں لپیٹ کر مسلم دنیا کو قومی ریاستوں میں منقسم کر کے باہم دست و گریباں کر دیا تھا،یہی وہ زمانہ تھا جب کیمونزم کی راہ روکنے کی خاطر مغربی استعمار نے اسلامی نظریاتی تحریکوں کی آبیاری کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو سوویت یونین اور اس کی حامی سوشلسٹ حکومتوں کے خلاف صف آراءکر نے کی خاطر پہلے انہیں پُرامن جمہوری جدوجہد اور آخرکار مسلح مزاحمت کے ذریعے نفاذ اسلام کی راہ دکھائی، دونوں صورتوں میں اسلام کے مذہبی اداروں اور مسلمانوں کے معاشی و سیاسی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس کشمکش نے پہلے مصر،لبنان،افغانستان اور پھر شام، عراق اور لیبیا کو داخلی انتشار کی آگ میں جھونک کر وہاں عالمی طاقتوں کے لئے فوجی مداخلت کا جواز پیدا کیا،اسی نامطلوب جدلیات نے مسلمان ممالک کو اپنے قدرتی وسائل اور بہترین انسانی مواد سے فائدہ اٹھانے سے روک لیا ۔ اس عہد میں مشرق وسطی میں حسن البنا،سیدقطب، علامہ طنطاوی اور جنوبی ایشیا میں سیدابوالاعلی مودودی کی شاندار علمی خدمات نے ہر جگہ سیاسی مزاحمتی تحریکوں کو نظریاتی فعالیت فراہم کرکے کیمونزم کی پسپا کیا تاہم سویت یونین کی شکست و ریخت اور کیمونزم کے معاشی نظام کی ناکامی کے بعد اسلامی تحریکوں کا مخصوص سیاسی نظریہ اور ہنگامی نوعیت کا فکری سرمایہ بیکار ہو گیا، اب ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سحرانگیز عہد کے چیلنجز سے نمٹنے کی خاطرکوئی حسن البنا، سید قطب اور مولانا مودودی کے پائے مفکر میّسر نہیں رہا جو اس عہد کے تقاضواں سے نمٹ سکے، یہ اس عہد کے مسلمان علماءکی ذہنی استعداد اور علمی تبّحر پہ منحصر ہے کہ وہ اس زندہ دین کو جدید دور کے انسان کے سامنے کس طرح پیش کرتے ہیں۔

علی ہذالقیاس ،نئے میلنیم کے آغاز پہ عالمی طاقتوں نے جنوبی ایشیا میں مذہبی تنظیموں کی مسلح مزاحمت کو کند اور دینی عناصر کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کی خاطر پاکستان میں عمران خان کی شکل میں پاپولزم کوفروغ دیکر جمہوری طرز تمدن کی جگہ ہائبرڈ طرز حکمرانی کی راہ ہموار بنائی،جس سے مذہبی سیاسی جماعتوں کی انتخابی حمایت میں بتدریج کم ہوتی گئی۔

دریں اثنا، نادیدہ قوتوں نے نچلی سطح پہ مذہبی تشدد کو مہمیز دیکرمعاشرے کے اُن کمزور طبقات کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا،جو دینی جماعتوں کی حمایت کا دم بھرتے تھے، اب وہی ناتواں حلقے دائیں بازو کے اُس پاپولسٹ لیڈر عمران خان کی حمایت میں حد سے گزر جانے کو تیار ہیں، جو انہیں جبلی تقاضوں کی تکمیل اور سماجی آزادیوں سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا رہا ۔اس تناظر میں 8 فروری کے انتخابات نے دینی سیاسی جماعتوں کو فناہ و بقا کے خط امتیاز پہ لا کھڑا کیا اگر مذہبی قیادت نے اپنے طور طریقوں اور نظریاتی شعور کو اس عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو وقت انہیں پامال کرکے آگے نکل جائے گا لیکن مخمصہ یہ ہے کہ مذہبی قیادت کو اپنے ہی تخلیق کردہ سیاسی و سماجی اصولوں نے پابہ زنجیر کر رکھا ہے، کسے پتہ تھا کہ وہ جن تصاویر اور ویڈیوز کو فحاشی اور بے راہ روی کا وسیلہ کہہ کر مسترد کر رہے ہیں، کل انہی تکنیکی وسائل کو ابلاغ حق کے لئے بروکار لانا پڑے گا،بلاشبہ اس عہد میں اسلام کو سائنسی اصلاحات میں نئی تفہیم کی ضرورت پڑے گی، مگر افسوس کہ اس عہد کے روح کی ترجمانی کی خاطر ہمیں امام ابوحنیفہ ،ابن رشد،امام غزالی ،رازی ،ابن سینا اورابن جاحظ جیسے جن عالی دماغ لوگوں کی ضرورت تھی، وہ ناپید ہیں ۔

بہرحال، 2013 کے بعد سے ملک بھر میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بنک میں بتدریج کمی نوٹ کی گئی،قرائن بتاتے ہیں کہ گراوٹ کا یہ رجحان مستقبل میں بھی برقرار رہے گا۔ 2013 کے انتخابات سے قبل، متحدہ مجلس عمل کے مذہبی اتحاد کو توڑا گیا تو اس اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے بالترتیب فقط 3 اور 10 نشستیں بچا کر ملکی سیاست کے مرکزی دھارے سے خود کو الگ کر لیا ، اسی طرح، 2018 کے انتخابات میں، مذہبی جماعتوں نے کاسٹ شدہ 54.3 ملین ووٹوں میں سے 5.2 ملین ووٹ حاصل کئے۔ سوشل میڈیا کے بے لگام ابلاغ کے ساتھ 56.86 ملین نوجوان ووٹرز کی شمولیت ،جو دراصل 8 فروری کے انتخابات میں کل 130 ملین ووٹرز کا 45 فیصد ہیں،اس ملک کے سماجی شعور اور انتخابی سیاست کو نئی جہت دے گئی۔ ہمارے معاشرے کی جُزیات تک سوشل میڈیا کی رسائی نے دور افتادہ علاقوں کو مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے منسلک کرکے علاقائی اور نسل پرست جماعتوں کے وجود کو مٹا دیا۔ایسے میں مذہبی جماعتیں کے پاس نوجوان ووٹر کی توجہ لینے کے لئے ایسا کچھ نہیں تھا جو انہیں باعزت زندگی جینے کی امید فراہم کرتا،عام لوگ مذہبی رہنماؤں کی بڑھتی ہوئی دولت اور معاشرے کی معاشی بدحالی ہضم نہیں کر سکتے کیونکہ پیغیمر اسلام نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو پورا عرب غریب جبکہ مکہ کی دو امیر ترین شخصیات،حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر کی دولت ان کے پاس تھی لیکن آپﷺ دنیا سے جب رخصت ہوئے تو بلاد عرب میں زکٰوة لینے والا کوئی نہیں تھا مگر امام انقلاب کے گھر فاقے تھے۔

اسلام پسند جماعتوں کے انتخابی امکانات تب روشن ہوں گے،جب مذہبی اداروں کی بجائے عام مسلمان کی زندگی میں خوشحالی آئے گی۔اس سال قومی سیاست پر حاوی ہونے والے مسائل میں کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور سویلین امور میں ملٹری مداخلت جیسے تنازعات سایہ فگن تھے لیکن مذہبی عناصر ان عوامل سے مطلقاً لاتعلق تھے۔چنانچہ مذہبی سیاسی جماعتیں، قوم کو درپیش پیچیدہ سیاسی مسائل،سوشل میڈیا کے باعث پنپتے سماجی تغیرات اور عہد جدید کی اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لئے خلافت کے احیاءکا ایشو اٹھا سکتی ہیں۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین