Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

عدلیہ کے انحطاط کی کہانی۔۔ قسط3

Published

on

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاﺅن میں ایک جنازہ تھا جہاں شہر کے بہت سے معززین شرکت کر رہے تھے ۔ایسے میں اس جنازہ پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تمام شرکا جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے ۔دس بارہ منٹ تک میت تنہا ایک درخت کے نیچے پڑی رہی ۔

یہ جنازہ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے جج جسٹس مولوی مشتاق کا تھا ۔جسٹس مولوی مشتاق کا شکوہ تھا کہ بھٹو دور میں ان سے زیادہ جونیئر جج کو ترقی دی گئی اسی کے باعث انھوں نے ملازمت سے غیر حاضری کی چھٹی لی اور سوئٹزرلینڈ چلے گئے اور وہاں دو سال گزارے بھٹو حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد پاکستان واپس آگئے۔

مولوی مشتاق کی پاکستان واپسی پر جنرل ضیاءالحق نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا تاکہ وہ بھٹو کے مقدمے کی صدارت کر سکیں اور پھر انھوں نے وہی کیا جس کی قیمت پر انھیں یہ منصب دیا گیا تھا اور انھوں نے انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کے بھٹو کو سزائے موت سنا دی ۔اور سزائے موت کوآج کی تاریخ بھٹو کا جوڈیشل مرڈر بھی کہتی ہے ۔

ضیاءالحق نے 5 جولائی 1977 کو پاکستان میں مارشل لاء لگایا، وزیراعظم بھٹو اور ان کی کابینہ کے تمام وزراء کو گرفتار کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ آئین معطل کر دیا گیا اور شہری حقوق سلب کر لیے گئے۔ مارشل لاء کے جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس نے نظریہ ضرورت کے تحت 10 نومبر 1977 کو اسے درست قرار دیا۔اور سپریم کورٹ کے ججز نے اپنی نوکریاں بچانے کے لئے مارشل لاءکو جائز قرار دے دیا۔

بھٹو کو 29 جولائی 1977 کو رہا کر دیا گیا لیکن 3 ستمبر 1977 کو ایک سیاسی مخالف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کی اجازت دینے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے شواہد کو “متضاد اور نامکمل” پایا اور بھٹو کو 13 ستمبر 1977 کو رہا کر دیا گیا، اس جرم میں ضیاالحق نے جسٹس صمدانی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

تین دن بعد 16 ستمبر 1977 کی رات آرمی کمانڈوز لاڑکانہ میں “المرتضیٰ” کی دیواروں پر چڑھ گئے، تمام گارڈز کو باہر نکال دیا اور بھٹو کو گرفتار کر لیا۔بھٹو کا مقدمہ 24 اکتوبر 1977 کو شروع ہوا اور انہیں نچلی عدالت کے بجائے لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، اس طرح وہ ایک سطح کی اپیل سے محروم ہو گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں پانچ نئے ججوں نے مقدمہ سنا یہ سب ججز حضرات بھٹو کے خلاف ذاتی رنجش رکھتے تھے اور انھوں نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی ۔

 بیگم نصرت بھٹو نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔بدقسمتی سے سپریم کورٹ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے اقدامات کئے گئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان یعقوب علی خان کو 22 جولائی تک جبری ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا گیا لیکن جبری ریٹائرمنٹ سے صرف تین دن قبل انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کی درخواست کو تسلیم کیا جس میں ان کے شوہر کی نظر بندی کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اپیل کی سماعت کے لیے نو رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

بنچ کی سربراہی جسٹس انوار الحق کر رہے تھے جن کی قابلیت یہ تھی کہ وہ ضیاالحق کے بہت قریب تھے۔ انھوں نے ضیا الحق کے ساتھ مل کر محسوس کیا کہ نو ججوں میں سے پانچ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹنے پر آمادہ ہیں، اس لیے کیس کی سماعت جولائی 1978 کے آخر تک ملتوی کر دی گئی، تاکہ ایک جج یعنی قیصر خان ریٹائر ہو جائیں۔ ایک اور جسٹس وحید الدین احمد بیمار ہو گئے۔ اسطرح متوقع اکثریت (بھٹو کے حق میں) اقلیت میں رہ گئی اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو 4:3 سے برقرار رکھا گیا۔ بھٹو کی بریت کے حق میں ووٹ دینے والے تین ججوں میں بلوچستان کے جسٹس دراب پٹیل، کے پی کے کے جسٹس صفدر شاہ اور سندھ کے جسٹس محمد حلیم شامل تھے کیونکہ انہیں قتل کی سازش کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں مل سکا۔ بھٹو کو سزائے موت سنانے والے چار ججوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ نظرثانی کی درخواست 24 مارچ 1979 کو خارج کر دی گئی اور بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی ۔اسطرح ملکی عدالتی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہو گیا ۔سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے تسلیم کیا کہ اس مقدمے میں غلطی ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی غلطیاں کب ختم ہونگی ۔یقینا یہ غلطیاں آج تک جاری ہیں کبھی انھیں چمک کا نام دیا گیا اور کبھی ٹرک کا ۔جب تک چمک اور ٹرک جاری رہیں گے انصاف کا فقدان رہے گا غریب عوام کے مقدموں کی تاریخ انھیں مرنے کے بعد ملے گی۔ انصاف کا قتل جاری رہے گا ۔یہ شاید اس وقت تک جاری رہے جب تک انصاف فراہم کرنے والے جسٹس مولوی مشتاق کے جنازے سے سبق نہ سیکھ لیں۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین