Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

عدلیہ کے انحطاط کی کہانی۔ قسط دوم

Published

on

عدلیہ کی تاریخ میں بہت سے ایسے اسٹے آرڈرز ہیں جن کی وجہ سے قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا لیکن افسوس کہ عدلیہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔اورنج ٹرین کیس کا اگر جائزہ لیا جائے تو عدالت کے علم میں تھا کہ یہ منصوبہ دوست ملک چین کے تعاون سے جاری ہے، یہ بھی علم تھا کہ 45 ارب روپے کے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی تکمیل میں تاخیر سے پنجاب حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود28 جنوری 2016 کو، لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان نے حکم امتناعی جاری کیا اور 11 محفوظ غیرمنقولہ نوادرات اور خصوصی مقامات کے 200 فٹ کے دائرے میں تمام تعمیراتی سرگرمیاں معطل کر دیں۔

عدالت عالیہ کے علم میں یہ بھی تھا کہ یہ تاخیر عوام کی معمول زندگی میں تکلیف کا باعث ہے۔ اس سے راستے میں تاجروں اور دکانوں کے مالکان کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے لیکن اس وقت بھی عدالتیں شاید ’ قاسم کے ابو‘ کے عشق میں مبتلا تھیں انھیں خطرہ تھا کہ اگر اورنج ٹرین بروقت مکمل ہو گئی تو ’ قاسم کے ابو‘ کی پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے اسلئے عوامی اورقومی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بینچ میں شامل تین جج، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا حصہ تھے۔ کچھ وکلاء کا خیال تھا کہ پہلے یہ ججز پاناما کیس میں مصروف تھے جس کی وجہ سے فیصلہ جاری نہیں کیا گیا بعد ازاں یہ سب گرمیوں کی چھٹیوں پر چلے گئے۔ چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے اگست 2016 کے حکم نامے کے خلاف پنجاب حکومت کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ دوسری طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) منصوبوں کے لیے مختص 45 ارب ڈالر کی چینی امداد خطرے میں پڑچکی تھی۔ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعلقات کے تمام پہلوؤں کو شدید دھچکا لگ رہا تھا اور یہ اقدام پاکستان کے دیگر تمام دو طرفہ اور کثیر جہتی عطیہ دہندگان کو غلط اشارہ دے رہا تھا۔ مسلسل تاخیر کی صورت میں، ٹھیکیداروں کے پاس معاہدہ ختم کرنے کا اختیار تھا جس کے نتیجے میں مواد اور اشیاء کی مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اضافی تعمیراتی لاگت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر فیصلہ محفوظ ہونے کے آٹھ ماہ بعد اورنج ٹرین کی تعمیر کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا لیکن عوام کو آخر یہ پوچھنے کا حق تو ہے کہ اس تا خیرکی وجہ سے جو قومی نقصان ہوا اسے کون پورا کرے گا؟ عوام کو اعلی عدلیہ سے یہ درخواست کرنے کا حق بھی ہے کہ آئندہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں کو عوامی مفاد پر قربان کر دیں، یقینا عوام دعائیں دیں  گے۔

قومی مفادات میں عدلیہ اگر آگے بڑھ کے کام نہیں کرے گی تو سلسلہ چلنا مشکل ہو گا ابھی حال ہی میں پنجاب حکومت نے انکشاف کیا کہ عدلیہ کی آڑ لے کر شوگر مافیا اربوں کا مال بنا گیا اس وجہ سے عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں وہ چند اسٹے آرڈرز کی وجہ سے مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں ۔

شوگر ملرز کے حق میں منظور ہونے والے دو حکم امتناعی ذخیرہ اندوزوں کو آزاد کر چکے ہیں، چند روز پہلے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب نے بتایاکہ خوراک کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ملز مالکان، ذخیرہ اندوزوں، سٹہ بازوں کے درمیان گٹھ جوڑ سے مارکیٹ میں قیمتوں میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے تمام کیسز کی سماعت ایک خاص شخص نے کی ہے۔ شوگر مافیا کی لوٹ مار کے کئی دن بعد، پنجاب حکومت حرکت میں آئی اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حق میں گزشتہ ماہ منظور کیے گئے دو حکم امتناعی کی چھٹی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے 7 اگست کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں کین کمشنر پنجاب کو 5 ستمبر تک چینی کی قیمت مقرر کرنے سے روک دیا تھا۔ جسٹس انور حسین نے یہ عبوری حکم شوگر ملز مالکان کی درخواستوں پر دیا جس کے نتیجے میں عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

سیکرٹری خوراک کا کہنا ہے کہ کہ ان سٹے آرڈرز کی وجہ سے چینی کے ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھٹی مل رہی ہے جس کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پنجاب حکومت مل کے ریکارڈ اور اجناس کے دستیاب سٹاک تک رسائی سے انکار کے بعد چینی کی قیمت مقرر نہیں کر سکی۔بالآخر پنجاب حکومت کی طرف سے فوری طور پر اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ یہ بھی الزام لگا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ایسے تمام کیسز کی سماعت ایک مخصوص جج کر رہا ہے، جب بھی چینی کی قیمت کا معاملہ فیصلہ کے لیے آئے تو ملرز کو ریلیف ملتا ہے ۔اعلیٰ عدلیہ کو پنجاب حکومت کی اس رپورٹ کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا اور دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی کرنا ہو گا۔ اگر کسی نے ذاتی مفاد کی خاطر عوامی مفاد کو نقصان پہنچایا ہے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔

ابھی بھی وقت ہے عدلیہ اپنے اندر خامیاں دور کرنے کے لئے اصول وضع کرے تاکہ اس ملک میں عدلیہ کا وقار بحال ہو سکے۔ ایسے کسی بھی مسئلے پر اسٹے آرڈر دینے سے قبل سوچنا ہو گا کہ یہ ملکی اور عوامی مفاد کے خلاف تو نہیں ۔یاد رہے کہ کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظلم کا نہیں ۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین