Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

عمران خان کی رہائی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، پی ٹی آئی سٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہے تو کر لے، وزیر دفاع

ہم نے افغانستان کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ہاں سے لوگ آ کر پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، خواجہ آصف

Published

on

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی اگر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بانی کی رہائی سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ایک سوال پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے نمٹنا چاہیے اس کے لیے بات چیت لازم ہے۔

ایک اور سوال پر وزیر دفاع نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے، یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔‘

وزیر دفاع کہتے ہیں کہ انھیں (فوج اور حکومتوں کو) توقع تھی کہ دہشت گردی دوبارہ نہیں پھیلے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ گذشتہ ایک دہائی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بڑھتی دہشتگردی کا باعث بنے۔ ان کے مطابق اس میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک واپس لانا شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں امید تھی کہ افغان حکومت ہم سے تعاون کرے گی مگر وہ ان (طالبان عسکریت پسندوں) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔

’ہم نے کہا کہ کوئی تو حل نکالیں۔ ان کی مغربی سرحد کی طرف نقل مکانی کرانے پر بھی بات ہوئی اور تقریبا دس ارب روپے دینے کو تیار تھے۔ مگر خدشہ تھا کہ یہ وہاں سے بھی واپس آ سکتے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے چار سے پانچ ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور ’طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کاروائیاں کر رہے تھے انھیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں۔ اب وہ آتے ہیں، ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جن کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں، ان میں واپس آنے والے طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ چین کی طرف پاکستان پر یہ آپریشن شروع کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔

’ان کا یہ دباؤ ضرور ہے کہ وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سی پیک ٹو کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ انھیں اچھا لگے گا کہ پورا پاکستان محفوظ ہو، مگر فی الحال وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کے لوگ ہیں، اور ان کا کام ہے، وہ محفوظ ہوں۔‘

اس سوال پر کہ کیا اس آپریشن کے ذریعے چینی منصوبوں کو سکیورٹی تھریٹ پر بھی قابو پایا جائے گا، خواجہ آصف نے کہا کہ ’ان کے خلاف تھریٹ پر بھی کام ہوگا مگر اس فوجی آپریشن کا مقصد عام پاکستانی شہریوں کو تحفظ دینا ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا بلوچستان میں ان تنظیموں سے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں گے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر وہ پاکستان کے فولڈ میں آنا چاہتے ہیں، اور بین الاقوامی کوہیژن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں۔ ہم بالکل ان سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘

وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔

انھوں نے افغانستان کی سرحدی حدود کے اندر پاکستان کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بالکل ہم نے ان کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، تو ہم نے انہیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔

اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے، وزیر دفاع نے کہا کہ ’ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا۔ ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کر لیں۔‘

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین