Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

7رکنی بنچ بنانہیں توفیصلہ 4/3 کا کیسے؟2منٹ میں اپیل خارج کر سکتے ہیں لیکن قانونی نکات سن کرفیصلہ دینا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ

Published

on

سپریم کورٹ میں پنجاب الیکشن کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بنچ کے سربراہ ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز کہا کہ ہم نے نئے نکات نظر ثانی میں اٹھائے ہیں،وفاقی حکومت کے جواب میں پہلے بھی نکات اٹھائے تھے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپکو وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، آپ گھبرائیں نہ ماضی کی چیزوں کا آپ پر استعمال نہیں کریں گے،ہم اس عدالت میں آپ کی یا کسی اور کی نہیں بلکہ اللہ کی رضا کیلئے بیٹھے ہیں،ہم کھلے دل کیساتھ یہاں بیٹھے ہیں،آپ بھی اپنے دوستوں کو سمجھائیں ہمارے دروازے پر آکر جو کچھ کہا گیا، ہم سب کچھ اللہ کی رضا اور عوام کی خاطر برداشت کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کل کہا تھا وفاقی حکومت پہلے چار تین کے چکر میں پڑی رہی،

ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا تھا،اپنے جواب میں 4/3 کے فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ عدالت آپ کی سماعت کیلئے بیٹھی ہے، کوئی معقول نکتہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے، عدالت میں نکتہ اٹھایا گیا لیکن اس پر بحث نہیں کی گئی، کل نظر ثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی،حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کیلئے بیٹھے ہیں،بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں، ایوان میں گفتگو بھی سخت نہ کیا کریں ہم اللہ کیلئے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے،اپنے ساتھیوں سے کہیں ہمارے دروازے پر کھڑے ہو کر اتنی سخت باتیں نہ کریں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کل آبزرویشن دی جس کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری ہرچیز درست رپورٹ نہیں ہوتی ہے،کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی،پی آر او نے وضاحت جاری کی اس کو بھی غلط طریقے سے پیش کیا گیا،میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا،پولیس نے عمران خان کیلئے بلٹ پروف مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا،اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو آپ کو دیکھ کر کھلے دل سے “گڈ ٹو سی یو” کہا،اٹارنی جنرل صاحب آپ پر سکون رہیں بیٹھ جائیں۔ ابھی الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنتے ہیں پھر آپکے مفید دلائل بھی سنیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے،انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لئے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا،مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 150 سال کی عدالتی نظیریں غیر موثر ہوگئی ہیں، ان نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے۔اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی دائرہ سماعت پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے،سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی،دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے، کیسے ممکن ہے سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو۔ آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، کیا دس سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نظر ثانی دائر کرنے کیلئے مدت ختم نہیں ہونی چاہیئے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتادیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز نظر ثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں تو نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی،کیا فیصلے کے بیس سال بعد نظرثانی دائر ہو سکتی ہے ،اگر نظر ثانی کی مدت والا رول لاگو ہو سکتا ہے تو دائرہ کار کیسے نہیں ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے والوں نے دائرہ کار آئینی مقدمات میں محدود نہیں رکھا،ملک کے تین بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہوں،وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے،احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں،آپ کی نظر میں نظرثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے،آپ چاہتے ہیں نظرثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے،اس نکتہ پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے،اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں اس پر بھی دلائل دیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ پہلی بار عدالت آیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایسے دلائل قانون کے حوالے سے بھی دئیے جائیں گے،الیکشن کمیشن نے کہا تھا سکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروا دیں گے،اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے،نو رکنی بنچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے،سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے،قانونی نکات پر دلائل کی بجائے بنچ پر اعتراض کیا گیا،نو رکنی  سے بنچ  پانچ رکنی بنا وہ بھی عدالتی حکم پربنا،سات رکنی بنچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہو گیا،عدالت دو منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے،عدالت قانونی نکات سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے،آسانی سے کہہ سکتے ہیں آپ نے سواری مس کر دی۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے صدر کو خط لکھا۔ اس چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں،صدر کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا،سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے کی کوشش کرتی ہے، الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک ہی روز انتخابات کی ایڈوانس کیوں نہیں دی،صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا بتایا گیا،الیکشن کمیشن نے صدر کو نہ سیکیورٹی کا بتایا نہ فنڈز کا،زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے 218/3 کے تحت الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات دئیے جائیں،آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی، 16ہزار ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن عدالت نے 184/3 اور 187 کا اختیار استعمال کیا،ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت نے ججز کیس میں سوموٹو نظرثانی کی تھی۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے بتایا کہ  ہمارے بنچ کے ایک ممبر نے دوسرے کیس میں جانا ہے، کل کیس دوبارہ سنیں گے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین