Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

کیر تھر میں وبائی مرض سے آئی بیکس کی بڑے پیمانے پر اموات کا جھوٹ کون پھیلا رہا ہے؟

Published

on

دیہی سندھ کے علاقے کیرتھرمیں واقعی آئی بیکس مررہے ہیں یا یہ محض پروپیگنڈہ ہے،ہرن کے خاندان سے تعلق رکھنے والے آئی بیکس مبینہ طور پر بھیڑ،بکریوں میں پائی جانے والی پی پی آر نامی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،سندھ وائلڈ لائف نے آئی بیکس کی اموات کو قدرتی قراردے کر کسی بھی وبا پھیلنے کی تردید کردی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دیہی سندھ کے کیرتھر میں ہرن کے خاندان سے تعلق رکھنے والے  روایتی آئی بیکس گھر کے پالتو دودھ دینے والے جانوروں بھیڑ،بکریوں میں پائی جانے والی ایک بیماری  پی پی آر سے متاثر ہوکر دم توڑ رہے ہیں،پراسرار بیماری عفریت کی طرح آئی بیکس پر حملہ آور ہورہی ہے۔

اس بات کی تصدیق مذکورہ علاقے کے قرب وجوار میں بسنے والے مقامی افراد سے بھی ہوئی ہے،ان کا کہنا ہے کہ ریوڑ کے ہمراہ جانے والے کچھ چرواہوں نے گلہ بانی کے دوران مردہ حالت میں کچھ آئی بیکس کا مشاہدہ کیا ہے،ان مقامی لوگوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران بیماری میں مبتلا کئی آئی بیکس کی موت ہوئی ہے۔

پی پی آرکو مقامی سندھی  زبان میں گوٹ طاعون کہا جاتا ہے،گوٹ طاعون عام طور بھیڑوں اور بکریوں سے سمیت دیگر چوپایوں میں پائی جاتی ہے،ممکنہ طور پر یہ بیماری مقامی بکریوں سے یہ بیماری آئی بیکس میں منتقل ہورہی ہے۔

 ایک سروے کے دوران کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں 30 ہزار سے زائد آئی بیکس رپورٹ ہوچکے  ہیں،سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق کچھ مافیاز اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس معاملے کو ویسے ہی ہوادے رہے ہیں،جیسے چند سال قبل سندھ کے روایتی موروں میں رانی کھیت نامی بیماری کا واویلا کیا گیا تھا۔

درپردہ ایک این جی اوسرگرم عمل ہے،انھیں پہلے بھی بتایا گیا تھاکہ جنگلی حیات میں امراض کی تشخیص اور علاج معالجے گھر کے پالتو جانوروں یا لائیو اسٹاک کی طرح ممکن نہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ سندھ وائلڈ لائف کی موبائل ٹیموں نے نیشنل کیرتھر پارک میں اتوارکوبھی گشت کیا،طویل رقبے پر پیٹرولنگ کے دوران کسی بھی آئی بیکس میں بیماری کے شواہد نہیں ملے۔

سندھ وائلڈ لائف کے ایڈمن ممتاز سومرو کا کہنا ہے کہ اگر ایک آدھ آئی بیکس کی موت واقع ہوئی ہے تو قدرتی ہوگی،اصل تشویش کا معاملہ لائیو اسٹاک میں پھیلنے والی کسی وباء میں ضروری ہوتا ہے کیونکہ وہ روزمرہ کی خوراک کا لازمی جزو ہے،جہاں تک جنگلی حیات کا تعلق ہے تو وہاں قدرت کا ایک ایسا نظام موجود ہے جس میں انسانی مداخلت کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہڑتی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین