تازہ ترین
کون بنے گا گورنر پنجاب ؟
پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ نون کےساتھ الائنس کرکے آئندہ حکومت سازی کی راہ ہموار کردی ہے لیکن دونرں جماعتوں میں جو پاورشئیرنگ فارمولہ طے پایا ہے وہ ملکی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ جس میں ملک کے آئینی اور انتظامی عہدوں کو الگ الگ کیا گیا ہے۔ پیلزپارٹی نے محض 54 سیٹوں کے ساتھ تمام اہم ترین آئینی عہدے سمیٹ لئے جبکہ دوسری طرف نون لیگ سے ایک بھی وزارت لئے بغیر اسے وفاقی حکومت مکمل اپنی صوابدید پر تشکیل دینے کا فری ہینڈ دے دیا۔
پاور شئیرنگ فارمولے کی تمام جزئیات بہت دلچسپ اورغورطلب ہیں جس کے تحت پیپلزپارٹی کو صدرمملکت، چئیرمین سینیٹ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر کےعہدے ملیں گے لیکن پنجاب میں محض دس صوبائی اور سات قومی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی کے باوجود گورنرشپ کے حصول کو پیپلزپارٹی کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر پنجاب کے عہدے کے حصول کے لئے پیپلزپارٹی میں زبردست جوڑ توڑ اور لابنگ عروج پر ہے۔
پنجاب میں اب تک سابق گورنر مخدوم احمد محمود، پارٹی کے سینئیر رہنما قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن اور آصف ہاشمی سمیت متعدد نام سامنے آئے ہیں۔ مخدوم احمد محمود اس سے پہلے بھی گورنر پنجاب رہے ہیں۔ ان کی مسلم لیگ نون میں نامزد وزیراعظم شہبازشریف سے دوستی ہے۔ جنوبی پنجاب کی انتہائی وضعدار، بھاری بھرکم سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کے دوبیٹے مرتضیٰ محمود اور مصطفیٰ محمود رحیم یارخان سے 2018 کے بعد حالیہ انتخابات میں بھی پارلیمنٹ کے رکن بن گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے پارٹی کو ملنے والی سیٹوں کا کریڈٹ مخدوم احمد محمود اور ان کے کزن سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ ایک بار پھر گورنر پنجاب کے مضبوط امیدوار ہیں۔
گورنر شپ کے لئے زیرگردش دوسرا بڑا نام قمرزمان کائرہ کا ہے جو پیپلزپارٹی میں گذشتہ بیس سال کے دوران ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی اہمیت بڑھاتے گئے ہیں۔ وہ ہمیشہ چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی کورٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ پارٹی کا ایک سافٹ فیس ہیں۔ مخالفین بھی ان کی بات کو پوری توجہ اور اہمیت دیتے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری کا پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہو یا کوئی بھی بحرانی صورتحال آصف زرداری اور بلاول بھٹو ان کی مذاکراتی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ پارٹی نے ماضی میں انہیں گورنر گلگت بلتستان مقرر کیا۔ پھر آزادکشمیر کے لئے وزیراعظم کے مشیر بھی رہے۔ اب نون لیگ کے ساتھ حکومت سازی کے لئے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہوکر پاور شئیرنگ فارمولے کی تیاری میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو آنے والے دنوں میں وسطی پنجاب میں پارٹی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ قمرزمان کائرہ جیسی شخصیات سے کام لیں گے۔ اس بنیاد پر ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں گورنر پنجاب کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔
پیپلزپارٹی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو آنے والے دنوں میں وسطی پنجاب میں پارٹی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ قمرزمان کائرہ جیسی شخصیات سے کام لیں گے۔ اس بنیاد پر ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں گورنر پنجاب کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔
اسی طرح ندیم افضل چن بھی بلاول بھٹو کے بہت قریب ہیں، پارٹی چئیرمین انہیں بہت پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے اور پھر واپس پارٹی میں آئے تو بلاول بھٹو زرداری خود لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر آئے اور انہیں پارٹی میں واپس لائے۔ ان سے بھی وہ پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اور اس بنیاد پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انہیں گورنر پنجاب بنایا جائے تو وہ گورنر ہاؤس کو پیپلزپارٹی کے احیا کے لئے ایک بیس کیمپ بنا سکتے ہیں۔
پارٹی کے ایک انتہائی سینئر رہنما آصف ہاشمی کے چاہنے والے بھی انہیں گورنر ہاؤس میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آصف ہاشمی پارٹی کے ان دیرینہ رہنماوں میں ہیں جو بانی چئیرمین ذوالفقارعلی بھٹو، گورنرنواب صادق قریشی اور غلام مصطفی کھر کے ساتھ بھی کام کرچکے ہیں۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کےدور حکومت میں وہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بہت قریب تھے جنہوں نے انہیں متروکہ وقف املاک بورڈ کا چئیرمین بنایا تو آصف ہاشمی نے پارٹی کارکنوں میں سینکڑوں نوکریاں بانٹ دیں اور اسی پاداش میں کئی سال جیل بھی کاٹی۔ اب خود آصف ہاشمی بھی سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں گورنر پنجاب بنایا جائے تو وہ سلمان تاثیر سٹائل پر گورنر ہاؤس کو جیالا ہاؤس بنا سکتے ہیں۔
پنجاب کی گورنری حاصل کرنے کے پس پردہ وجہ یہی ہے کہ بلاول بھٹو بنیادی طور پر پیپلزپارٹی کو پنجاب میں نئے سرے سے متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 127 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی اسی سوچ کے تحت کیا گیا تھا۔ اس الیکشن میں انہیں پہلے دن سے نتائج کا اندازہ تھا تاہم یہ معلوم نہ تھا کہ اس قدر کم ووٹ نکلیں گے۔ اس درجہ کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے یہ تو ایک الگ بحث ہے تاہم پارٹی ذرائع کے مطابق لاہور میں این اے 127 کے نتائج نے بلاول بھٹو کو ایک نئے کام پر لگا دیا ہے اور اب جبکہ وہ انتخابات اور حکومت سازی کے معاملات سے تقریبا فارغ ہوگئے ہیں تو ان کا سب سے بڑا ہدف پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کرنا ہے۔ گورنر پنجاب کے ساتھ نئی صوبائی تنظیم کا ایک کمبینیشن بنا کر وہ صوبے میں پارٹی میں نئی جان ڈالنا چاہتے ہیں۔ جو آئندہ انتخابات میں ان کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کرے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس مقصد کے لئے گورنر پنجاب کے عہدے پر وہ ان رہنماؤں میں سے کس کا انتخاب کرتےہیں۔ یا پھر کوئی ڈارک ہارس سامنے آئے گا؟
-
کھیل8 مہینے ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین3 مہینے ago
بلا ٹرکاں والا سے امیر بالاج تک لاہور انڈر ورلڈ مافیا کی دشمنیاں جو سیکڑوں زندگیاں تباہ کرگئیں
-
کالم12 مہینے ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز12 مہینے ago
مرزا داغ دہلوی،حسن و عشق کے چرچے،محبت کی گھاتیں، عیش و عشرت کی راتیں
-
پاکستان1 مہینہ ago
پنجاب حکومت نے ٹرانسفر پوسٹنگ پر عائد پابندی ہٹالی
-
لائف سٹائل10 مہینے ago
ثومیہ خان کا نیا گیت ’ میرا لکھاں وچ اک ڈھولا‘ کبڈی ٹیم کپتان شفیق چشتی اور دیدار کی ماڈلنگ
-
ٹاپ سٹوریز12 مہینے ago
ابن خلدون، عمرانیات سمیت کئی علوم کا بانی، اصلی ’فادر آف اکنامکس‘
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
سموگ کی وجہ سے جمعہ 10 نومبر کو پنجاب بھر میں چھٹی کا اعلان