Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

عدالتی فیصلوں سے مسلم لیگ ن پریشان کیوں؟

مسلم لیگ نون سمیت تمام اینٹی عمران فیکٹرز محسوس کررہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو موجودہ سیاسی بساط کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے

Published

on

After providing relief to domestic consumers, we are looking for ways to provide relief in electricity bills to industrial consumers: Nawaz Sharif

کپتان کے دو دن تو اچھے گزرے۔ پہلے جمعہ کے روز پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں کا مقدمہ جیت لیا اور پھر ہفتے کو عدت کیس میں عدالت نے بری کردیا۔ دو کیسز میں کامیابی کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی۔ اگرچہ یہ بھی واضح ہے کہ متعدد نئے کیسز میں عمران خان کی نئے سرے سے گرفتاری اور زیرسماعت کیسز میں ممکنہ سزاوں کی وجہ سے ابھی ان کے جیل سے فوری باہر آنے کے امکانات نہیں ہیں۔ لیکن ماحول ایسا بن گیا ہے کہ جس نے بانی پی ٹی آئی کی سیاست کو زبردست عروج دیا ہے۔ دو روز میں ہی عمران خان اور ان کے ورکر شیر ہوگئے ہیں۔

ادھر دوسری طرف، اگرچہ یہ بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی کو اس کے حصے کی مخصوص نشستیں ملنے کے باوجود ایوانوں میں بالخصوص مرکزی حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس سادہ سے زیادہ اکثریت موجود ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی دوتہائی اکثریت سے اور پنجاب میں مسلم لیگ نون بھاری بھرکم اکثریت سے صوبائی حکومت چلا رہی ہے لیکن حکومتی صفوں میں ان دو فیصلوں سے بے چینی نظر آرہی ہے۔
حکومت بالخصوص نون لیگ ان فیصلوں سے پریشان کیوں ہے؟

اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ نون لیگ پاکستان کی سیاست میں گذشتہ چالیس سال سے ایک بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ بطور حکمران جماعت اور اپوزیشن کی حیثیت سے بھی نون لیگ کی قیادت پاکستان کی سیاست اور یہاں اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں اور پیچیدگیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ مسلم لیگ نون سمیت تمام اینٹی عمران فیکٹرز اب کھل کر محسوس کررہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو موجودہ سیاسی بساط کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے۔ جو حکمران اتحاد اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان طے پانے والے سیم پیج سے ہٹ کر اپنا ایک صفحہ لکھ رہا ہے ورنہ اتنی تیزی سے پردے کے منظر تبدیل ہونا ممکن نہیں۔

ماضی میں اس کی مثال جنرل پرویزمشرف کا دور ہے۔ جب 2006 میں جنرل مشرف اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایوان صدر میں بطور باوردی صدر موجود تھے۔ انہوں نے جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹایا تو ان کے خلاف چلنے والی تحریک ان کے کنٹرول میں نہ رہی۔ اس تحریک نے انہیں اتنا کمزور کردیا کہ 2008 کے انتخابات کے بعد نومنتخب پارلیمنٹ کے سیاسی قائدین نے انہیں استعفے کا محض ایک پیغام بھیجا اور ان کی صدارت اسی پر ڈھیر ہوگئی۔ عدالتوں سے حالیہ دو فیصلوں کے پیچھے بھی حکمران اتحاد، بالخصوص نون لیگ کو ایسی ہی بو آرہی ہے۔ اور لیگی رہنماوں نے فوری طور پر بیانات داغ کر ان خدشات کا اظہار کردیا۔
دوسری طرف دو بڑی عدالتی فتوحات کے بعد عمومی تاثر یہ بنا کہ جیسے جیل میں قید عمران خان اور اقتدار کے ایوانوں میں میلوں کا فاصلہ سمٹ گیا ہے اور اب کسی بھی دن عمران آئے گا اور ہر طرف چھا جائے گا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو عمران خان اپنے کسی لشکر کے ہمراہ شیرشاہ سوری بن کر فاتح اسلام آباد کے طور پر دارالحکومت میں داخل ہونےوالے ہیں اور نہ ہی حکومت کسی کاغذ کی ناو پر سوار ہے۔
پاکستان کے پاور سٹرکچر میں لاکھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ ان پر گھنٹوں بات ہوسکتی ہے۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ اس مروجہ سسٹم کے چند ایسے مثبت پہلو بھی ہیں جن کے ہونے سے ہی اب تک ملک کئی خرابیوں سے محفوظ بھی ہے۔ موجودہ سسٹم کی بڑی خوبی اس کا لچکدار ہونا ہے جس کی وجہ سے یہاں کبھی کسی کو ایک حد سے زیادہ اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ خواہ وہ کوئی سیاستدان ہو یا فوجی جرنیل، جج یا سرمایہ دار۔

اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جنرل ایوب، جنرل یحیٰ اور جنرل پرویزمشرف جب عوام کی نظروں میں غیر مقبول ہوئے تو ان کے اداروں نے بھی انہیں گڈبائی کہہ دیا۔ سیاستدانوں کی بات کریں تو 1986 میں جب بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تو ان کے استقبال کے لئے لاہور ائیرپورٹ سے لے کر مینار پاکستان تک انسان ہی انسان تھے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں کسی سیاستدان کا اتنا بڑا استقبال پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ چاہتیں تو وہیں اسلام کو فتح کرنے کےلئے مارچ کا اعلان کردیتیں لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہ ایک سیاستدان تھیں۔ وہ تصادم کی طرف نہیں گئیں بلکہ انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد طاقت کے مراکز سے گفتگو کی اور مذاکرات کے نتیجہ میں دوسال بعد ہونے والے انتخابات میں انہیں حکومت بنانے کا موقع ملا۔

نوازشریف کی بات کریں تو طاقتور حلقوں سے ان کی بار بار لڑائی ہوئی۔ اور دیکھا جائے تو وہ اب بھی مقتدر حلقوں سے درحقیقت ناراض ہیں لیکن انہوں نے بھی کبھی ٹکراؤ کی سیاست نہیں کی۔ 1996 میں صدر غلام اسحاق خان نے ان کی اسمبلی توڑی تو نوازشریف سپریم کورٹ میں اپنا کیس جیت گئے، اسمبلی بحال ہوگئی۔ لیکن نوازشریف فاتح کے طور پر ایوان وزیراعظم واپس نہیں گئے۔ غلام اسحاق خان سے مذاکرات ہوئے، عدم استحکام پیدا نہ کرنے کی گارنٹیز ہوئیں اور دونوں نے اپنے اپنے عہدے سے استعفا دے کر نئے انتخابات سے رجوع کرلیا۔

اسی طرح 2007 میں نواز شریف جب مشرف کے ہاتھوں جلاوطنی کے بعد واپس لوٹے تو 2013 کے انتخابات کا انتظار کرنا پڑا تب جاکر دوبارہ وزیراعظم بنے۔ اور 2016 میں اس وقت کی اسٹبلشمنٹ سے ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں وہ ابھی تک اقتدار میں واپس نہیں آسکے۔
میں یہ بات واضح کردوں کہ میرے نزدیک یہ تمام مثالیں، مثالی نہیں۔ بطور ایک جمہوریت پسند میں اسے کوئی آئیڈیل صورتحال ہرگز تصور نہیں کرتا۔ بلکہ یہ محض پاکستان کے پاور سٹرکچر کا ایک اجمالی جائزہ ہے یا پھر اسے زمینی حقائق کہہ لیں۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ دو کیسز ہی نہیں اگر تمام کیسز میں بھی عمران خان عدالتوں سے بری ہوجائیں۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے پیچھے کھڑا ہوجائے۔ انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔

عمران خان اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات پر زور دیتے ہیں۔ میری دانست میں اگر وہ ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں تو اس مذاکراتی میز سے بہت کچھ مل سکتا ہے، صرف ان کی ذات کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو بھی!

Continue Reading
3 Comments

3 Comments

  1. deltarune

    جولائی 14, 2024 at 12:37 شام

    Experience the adventure of deltarune, where players cross a captivating world, interact with catchy characters, and front challenging foes. The stratagem’s predominating fair is to examine the story-rich environment and as though impactful choices, providing an immersive and powerful RPG experience.

  2. Craigpek

    جولائی 14, 2024 at 12:51 شام

    The fascinating story of the creation and meteoric rise of Amazon https://amazon.jeff-bezos-fr.com from its humble beginnings as an online bookstore to its dominant force in the world of e-commerce.

  3. Anthonycaw

    جولائی 15, 2024 at 5:13 صبح

    The story of Kanye West https://the-college-dropout.kanye-west-fr.com, starting with his debut album "The College Dropout,” which changed hip-hop and became his cultural legacy.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین