Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

الیکشن 2023

کیا مسلم لیگ ن اپنا سیاسی گڑھ بچا پائے گی؟

Published

on

مسلم لیگ ن نے آئندہ انتخابات میں کسی سیاسی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بغیر انتخابی میدان میں اترانے کا اعلان کر دیا ہے۔ نو مئی کے بعد جنم لینے والی صورت میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کا  یہ اعلان کسی کیلئے بھی کوئی “سر پرائز”  نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہے اورنومئی کے واقعات سے پہلے اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ عندیہ دیتے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات اکھٹے ایک پلیٹ فارم سے لڑا جاسکتا ہے لیکن اب مسلم لیگ ن پہلی جماعت ہے جس نے کسی قسم کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اب صورت حال پہلی سی نہیں رہی۔ مسلم لیگ ن کے اعلان سے یہ صاف طورعیاں ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے گڑھ پنجاب میں کسی دوسرے کیساتھ شراکت داری نہیں چاہتی۔

پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کے مدمقابل انتخابات میں حصہ لیتی رہی اور یہ اتحاد وجود میں آنے سے پہلے بھی اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے امیدواروں نے 2018 کا انتخاب بھی ایک دوسرے کے مخالف لڑا لیکن بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد بنا جو پھر حکمران اتحاد بن گیا۔

مسلم لیگ ن نے اپنے قیام کے بعد اب تک کل چھ انتخابات میں حصہ لیا، دو مرتبہ وفاق اور تین مرتبہ پنجاب میں حکومت بنائی۔ اس میں 1997 کی ہیوی مینڈیٹ والی مسلم لیگ ن کی حکومت بھی شامل ہے۔ اب تک مسلم لیگ ن کو سب سے کم نشستیں 2002 کے انتخابات میں ملیں۔

ملک کے آبادی کے اعتبار کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں اوراسی بنیاد پراس کی اہمیت دیگر زیادہ ہے۔ ایک طرح سے پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا لیکن 1990 کے بعد یہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے اسی طرح نکل گیا جیسے ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے لیکن گزشتہ برس ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اور تحریک انصاف کی مقبولیت نے مسلم لیگ نون کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ اُن کا سیاسی گڑھ اٌن کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے یا نکل رہا ہے۔

وفاق میں حکومت کے قیام اور وزیر اعظم کے منصب کیلئے کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے پنجاب میں زیادہ سے زیادہ نشستیں لینا ضروری ہے، اسی لیے پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کا پنجاب میں سیاسی اور انتخابی اثر رسوخ رہا اور اب مسلم لیگ ن اپنے گڑھ پر کسی قسم کے سمجھوتہ کیلئے تیار نہیں لگتی۔

2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے بہت اچھے تعلقات تھے اور مسلم لیگ ن 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بھی رہی لیکن مسلم لیگ ن کی پیپلز پارٹی کے ساتھ یہ شراکت داری مہمان اداکار کی آمد کی طرح تھی اور انتہائی کم عرصے میں یہ حلیف حریف بن گیا اور مسلم لیگ ن نے حکومتی بنچ چھوڑ کر اپوزیشن بنچوں پر اپنا مورچہ سنبھال لیا۔ اسی 2008 کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چلی اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میں کئی  امیدواروں کی یہ خواہش تھی کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کا امید وار دستبردار ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مسلم لیگ نون کو اس بات کا مکمل ادرک ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں ان کی دال  نہیں گل سکتی، ایسے میں ان کو پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور خیبر پختونخواہ میں انہیں ان کا حصہ مل جائے گا۔

مسلم لیگ ن کیلئے اس وقت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا کوئی منافع کا سودا نہیں اور یہ وجہ ہے کہ وہ تنہا ہی اپنی انفرادی حیثیت میں انتخابی معرکے میں اترنے کا سوچ رہی ہے تاکہ وہ پنجاب، جسے مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، پر  اپنے اثر رسوخ کو برقرار رکھ سکے  لیکن سب اتنا آسان نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور حال ہی میں قائم ہونے والی استحکام پارٹی بھی پنجاب میں نشستیں حاصل کرنے کیلئے پورا زور لگائیں گی۔

2018 کے انتخابات میں پنجاب میں پنجہ آزمائی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہوئی۔ اب تحریک انصاف کیلئے بظاہر وہ صورت نظر نہیں آ رہی جو 2018 کے وقت میں تھی لیکن تمام تر حالات کے باوجود اس کی مقبولیت یا ووٹ بنیک میں کمی نہیں بلکہ اضافہ نظر آریا ہے جو مسلم لیگ ن کیلئے اچھا شگون نہیں۔ اب اس بات کا تعین ہونا ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ آئندہ انتخابات میں کتنا فعال اور موثر ہوتا ہے؟ یہ ووٹ بنیک کیا رخ اختیار کرتا ہے اور مسلم لیگ ن کے پاس اس ووٹ کا توڑ کیا ہے؟  جتنا مشکل  یہ مسلم لیگ نون کیلئے ہے اتنا ہی مشکل پیپلز پارٹی اور استحکام پارٹی کیلئے بھی ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹ کا کیا حل نکالا جائے۔

مسلم لیگ نون کو عام انتخابات میں پنجاب میں اپنی دھاک قائم کرنے کیلئے تحریک انصاف کے ووٹ کے علاوہ دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ ان میں سر فہرست مہنگائی ہے، اس کا جو بھی جواز مسلم لیگ ن پیش کرتی ہے اُسے تسلیم کرنا عوام کیلئے مشکل ہوگا۔ اس طرح مسلم لیگ ن کا “ووٹ کو عزت دو” کا بیانیہ اب باقی نہیں رہا۔ مسلم لیگ نون کو ووٹر کو راغب کرنے کیلئے نئے بیانیہ اور نئے نعرہ کی ضرورت ہوگی اور نیا بیانیہ کس حد تک کار آمد ہوتا ہے اس کا بہترین فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف انتخابات میں حصہ لیں گے اور کیا شہباز شریف کو ان کے متبادل کے طور پر قبول کیا جائے گا یہ بھی وہ سوال ہیں جن کا جواب کسی پہیلی کو بوجھنے سے کم نہیں۔

مسلم لیگ ن نے کسی سیاسی جماعت کیساتھ اتحاد اورسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بغیر انتخاب لڑنے کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کی اکثریت اندیشہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہنگ اسمبلی یا معلق اسمبلی کے وجود میں آنے کے امکانات ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے وزارت عظمیٰ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ وزیر اعظم بنانے کیلئے کسی بھی سیاسی جماعت کو زیادہ جتن کرنے پڑ سکتے ہیں، بقول شاعر

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین