Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

کیا مغربی افریقا کے ملکوں کا بلاک نائجر میں فوجی بغاوت کے خاتمے کے لیے فوجی مداخلت کرے گا؟

Published

on

Niger Army spokesman Colonel Major Amadou Adramane speaks during an appearance on national television, after President Mohamed Bazoum was held in the presidential palace

مغربی افریقی رہنماؤں کی طرف سے نائجر میں صدر محمد بازوم کی بحالی کے لیے فوج کو دیا گیا سات دن کا الٹی میٹم اختتام کو پہنچ رہا ہے،اب دونوں فریقوں کو اہم فیصلے کرنے ہیں۔

کیا مغربی افریقا کے لیڈر فوجی مداخلت کی دھمکی پر عمل کریں گے؟ کیا نائجر میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی لیڈر پیچھے ہٹ جائیں گے؟ کیا اس ڈیڈلائن میں توسیع کردی جائے گی؟

گزشتہ اتوار کی شام، پڑوسی ملک نائجیریا کے صدر بولا تینوبو کی سربراہی میں علاقائی بلاک نے کہا کہ جنتا کے پاس آئینی نظم بحال کرنے یا طاقت کے ممکنہ استعمال کا سامنا کرنے کے لیے ایک ہفتہ ہے۔

اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی رہنماؤں پر پابندیاں پہلے ہی عائد کی جا چکی ہیں اور سرحدوں کے ساتھ ساتھ نائیجیریا سے بجلی کی سپلائی بھی منقطع کر دی گئی ہے، یعنی سامان اب نہیں پہنچ رہا ہے اور خشکی سے گھرے ملک نے بندرگاہوں تک رسائی کھو دی ہے۔

لیکن جیسے جیسے سیاسی، سفارتی اور فوجی تناؤ بڑھتا ہے، ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد کیا ہو سکتا ہے؟

ڈیڈ لائن میں توسیع

پہلا ۤپشن تو یہ ہے کہ مغربی افریقی ملکوں کو گروپ اپنی ڈیڈالئن کو ۤگے بڑھا دی لیکن ڈیڈ لائن میں توسیع کو مغربی افریقی ملکوں کے بلاک کی جانب سے پسپائی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے تاہم ان ملکوں کے سربراہ یہ کہہ کر عزت بچا سکتے ہیں کہ سفارتی کوششوں میں پیشرفت ہوئی ہے اور وہ سفارتی کوششوں کو مزید وقت دینا چاہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ مغربی افریقا کے ملکوں کی ثالثی کی کوششیں باآور نہیں ہوئیں اور نائجر بھیجا گیا وفد چند گھنٹے بعد ہی واپس ۤگیا تھا اور کوئی پشرفت بتانے کو نہیں تھی۔

دوسری طرف اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں نے یورپ اور مغربی افریقا دونوں کے خلاف بیان بازی کو تیز کر دیا ہے، نائجر کے نئے فوجی حکمرانوں نے اعلان کیا کہ وہ نائیجیریا، ٹوگو، امریکہ اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر رہے ہیں اورفرانس کے ساتھ فوجی معاہدوں کو منسوخ کر رہا ہے جن کے تحت نائجر میں فرانس کو  1500 فوجیوں کو تعینات کرنے کی اجازت ہے۔

صدر بازوم، جو فوج کے زیر حراست ہیں، نے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں سخت زبان استعمال کی۔ انہوں نے خود کو “یرغمال” قرار دیا اور امریکہ اور پوری عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ آئینی نظم بحال کرنے میں مدد کریں۔

جمعہ کے روز امریکہ نے کہا کہ وہ نائجر کی حکومت کے لیے اپنی کچھ امداد روک دے گا، لیکن انسانی بنیادوں پر خوراک کی امداد جاری رکھے گا۔

فوجی حکمران اقتدار چھوڑنے کی ٹائم لائن دے دیں

معمالات کو ٹھنڈا کرنے اور درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے نائجر کے فوجی حکمران اور مغربی افریقا کے ملک جمہوریت کی بحالی کی ایک ٹائم لائن پر متفق ہو سکتے ہیں۔ اس میں صدر بازوم کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہو سکتی ہے تاکہ بات چیت جاری رہے اور ممکنہ طور پر مزید وقت مل سکے۔

مغربی افریقی بلاک نے پہلے ہی نائجر کے ہمسایہ ممالک مالی اور برکینا فاسو میں جمہوری تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے، جہاں حالیہ برسوں میں فوج نے سنبھال لیا تھا۔ لیکن مذاکرات مسائل سے بھرے تھے، انتخابات کی ڈیڈ لائن کو مسلسل پیچھے دھکیل دیا گیا اور اب بھی اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ اقتدار کی منتقلی حقیقت میں ہو گی۔

سوڈان، جہاں 2019 میں سویلین ملٹری حکومت تشکیل دی گئی  تھی اور اس  مشترکہ حکومت نے جمہوریت کی راہ ہموار کرنا تھی،  یہ بھی ایک ماڈل فراہم ہے لیکن حریف فوجی رہنماؤں کے درمیان ایک تلخ تنازع اس ماڈل کو بھی قابل اعتماد نہیں بناتا۔

فوجی مداخلت

مغربی افریقی رہنماؤں نے یہ نہیں کہا کہ اگر صدر بازوم کو بحال نہیں کیا گیا تو طاقت کا استعمال یقینی طور پر کیا جائے گا لیکن اسے ایک امکان کے طور پر کھلا رکھا گیا ہے۔

نائجیریا کے حکام نے اسے ’’آخری حربہ‘‘ قرار دیا ہے۔ صدر تینوبو نے کہا کہ نائیجر میں اگر فوجی لیڈر بات ماننے سے انکار کردیں اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں تو فوجی مداخلت ہو سکتی ہے۔

مغربی افریقا کے بلاک نے ماضی میں آئینی نظم بحال کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے، مثال کے طور پر گیمبیا میں 2017 میں جب یحییٰ جمعہ نے الیکشن ہارنے کے بعد استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن اس بار آگے بڑھنے کے بارے میں حساب کتاب کہیں زیادہ مشکل ہوگا۔

سب سے پہلے، نائیجر جغرافیائی طور پر مغربی افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ گیمبیا سینیگال اور بحر اوقیانوس سے گھرا ہوا ایک چھوٹا سا خطہ ہے، اس لیے نائجر میں فوج بھیجنا بالکل مختلف امکان ہوگا۔

دوم، علاقائی طاقت نائیجیریا، جو صدر بازوم کی بحالی کے لیے مغربی افریقا کے بلاک کی قیادت کر رہا ہے، کو اندرون ملک سیکیورٹی کے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، اس لیے فوج کے ایک اہم حصے کو نائجر بھیجنا ایک جوئے کی طرح ہوگا۔

تیسرا، مالی اور برکینا فاسو دونوں نے کہا ہے کہ نائجر میں فوجی مداخلت کو “اعلان جنگ” کے طور پر دیکھا جائے گا اور وہ اپنے ساتھی فوجی رہنماؤں کا دفاع کریں گے۔

اس طرح خطے میں مکمل جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے، خصوصا اگر نائجر کے عوام غیرملکی فوجی مداخلت کی مخالفت کرتی ہے، تاہم ابھی یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ نائجر کے عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔

نائیجیریا اور نائیجر بہت سے تاریخی اور نسلی رشتوں میں بندھے ہیں، دونوں طرف کے لوگ ایک ہی زبان بولتے ہیں، اس لیے  اگر معاملہ جنگ تک پہنچتا ہے تو نائیجیریا کے فوجی اس جنگ میں جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوں گے۔

نائجر کے شمالی ہمسائے الجیریا، چین اور روس نے تناؤ کو کم کرنے کے لیے تحمل اور مسلسل مذاکرات پرزور دیا ہے۔

تاہم نائیجیریا کے دارالحکومت اہوجا میں تین روزہ اجلاس کے بعد مغربی افریقا کے ملکوں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے علاقائی رہنماؤں کے لیے فوجی مداخلت کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، سینیگال اور بینن نے کہا ہے کہ اگر مغربی افریقا کے بلاک نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ نائجر میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق اکیلے نائیجیریا میں تقریباً 135,000 فعال فوجی ہیں، جب کہ نائجر کے پاس تقریباً 10,000 فوجی ہیں لیکن اس کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں کہ حملہ کرنا آسان ہوگا۔

پرامن حل ہی سب فریقوں کی ترجیح ہوگا لیکن مغربی افریقا کے ملکوں کا بلاک یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ اس بغاوت کو ختم کرنے میں کامیاب رہا ہے کیونکہ پچھلے تین سال میں یہ بلاک کوئی بغاوت روکنے میں کامیاب نہیں رہا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین