Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

طاقت کا سرچشمہ؟

Published

on

جنرل ایوب خان کی کابینہ میں تجارت اور امور خارجہ کی وزارتیں انجوائے کرنے کے بعد سندھ کے بڑے وڈیرے نے ماؤکیپ پہن لی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر مبشر حسن، اے رحیم، مختار رانا جیسے ترقی پسندوں کو سمیٹ کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی،  پہلا ستون تھا،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔دوسرا نعرہ تھا، روٹی کپڑا اور مکان۔ بھوک سے بلبلاتے لوگوں، دفاتر کے باہر دربان کے اشارے کے منتظر لاچاروں نے لاڑکانہ کے افق سے ابھرتا نیا سورج دیکھا۔ تب، 22 خاندان ہوں یا ملکی سیاست کے بانیان، اچے برج!  سب الٹ گئے۔ یہ تھا پیٹ کی آگ، بھوک کا وار۔

پچھتر سال بعد، آج پھر حکمران طاقت کا سرچشمہ کون، کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہوس اقتدار ہے، تصادم کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ بالادست طبقات، جو ہیں آئین کے ستون، وہی آئین، آئین کھیل رہے ہیں۔ چند روز قبل خبر تھی ۔۔ٹھٹھہ میں مفلسی نے 41 افراد کو نگل  لیا۔

 

ایک اور خبر تھی: ایک ہی دن میں 6 خواتین نے زہر کھا لیا۔ 3 ہلاک،  3 کو بچا لیا گیا۔ میں کانپ اٹھا، زہر کی گرانی کے دور میں کہیں ان 6 خواتین پر اسراف کا مقدمہ نہ بن جائے۔

یکم اپریل سے، قومی اسمبلی میں ایک رکن سائرہ بانو کے سوا کسی کے لبوں پر 23 کروڑ افراد کی فریاد نہیں سنی۔ بھوک مٹانے، روزگار بڑھانے والا ایک بل پاس نہیں ہوا۔ گونج ہے تو بس، اقتدار کی، طاقت کے سرچشمے کی۔ مسند شاہی کیلئے سر شام پیش ہونے والا بل، اگلی شام ڈھلنے سے پہلے صدر کی میز پر تھا۔ صدر کا استرداد، سپریم کورٹ کا پیشگی حکم امتناعی گیا بھاڑ میں! بل قانون بن گیا۔

آئین کی 25 شق تڑپتی رہ گئی، کب ملے گی تعلیم سب کو؟ بلوچستان میں 70 فیصد خواتین صرف انگوٹھے لگا سکتی ہیں۔

کب جاگیں گی آئین میں عوامی حقوق کی شقیں؟ اقتدار کے “رسہ کشوں” کی لگامیں کسنے والی شقیں، کب بنیں گے عوام طاقت کا حقیقی سرچشمہ؟

بھٹو مرحوم نے طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنایا، اب، طاقت کانسٹی ٹیوشن ایونیو، اسلام آباد میں سمٹ آئی ہے۔ 342 اراکین میں سے، موجود اراکین  جو کہہ دیں گے وہی نقارہ خلق ہو گا۔ 342 کا،ایوان کبھی کبھی تو دس منٹ بھی جاری نہیں رہتا۔ جس کام کیلئے بلایا جاتا ہے وہ کام زیر بحث آتا ہی نہیں۔

میں ملتمس ہوں، پاکستان کا آئین ہندوستانی آئین کا چربہ ہے، اسلام، ملکی حدود، حلف وغیرہ کی شقوں پر کاغذ رکھ دیا جائے، تو شاید کوئی پہچان ہی نہ سکے کہ آئین کس ملک کا ہے۔ میں حفیظ پیرزادہ مرحوم، محمود علی قصوری مرحوم، اور ان کے ساتھیوں پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا رہا، دو خطوں کے لیڈران کی سوچ میں ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارا آئین، ہندوستانی آئین کے برعکس، آمرانہ ہے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 238 پارلیمنٹ کو “ناخدا” بنا دیتا ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں، انڈہ پہلے یا مرغی؟ لیکن ہماری پارلیمنٹ اگر لکھ دے کہ انڈہ پہلے، تو جناب انڈہ پہلے۔ پارلیمنٹ اگر کہہ دے کہ، آج سپریم کورٹ کو تحلیل کیا جاتا ہے” تو آئین کی اس شق کے مطابق، سپریم کورٹ کا وجود ” صفحہ پاکستان” سے مٹ جائے گا۔

لیکن،چور جتنے مرضی دستانے پہن لے، کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ جاتا ہے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 227 کے مطابق: ” قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا”۔ پھر متعدد صفحات پر مشتمل باب دوم بھی ہے: “فنڈا مینٹل رائٹس اینڈ پرنسپلز آف پالیسی” اس  میں پارلیمنٹ نے اپنی بالا دستی سرنڈر کر دی ہے۔ پارلیمنٹ نے تسلیم کیا کہ بنیادی انسانی حقوق اٹل ہیں، انہیں سلب کرنے کی اجازت نہیں۔ اس باب میں پارلیمنٹ کی حدود طے ہو گئیں۔ پچھلے دنوں یہ معاملہ ہندوستان میں دوبارہ اٹھا تھا۔ آئین کے تحفظ کی 50  ویں سالگرہ کے موقع پر۔ اقتدار کے نشے میں بدمست، اندرا حکومت نے مذہبی عبادت گاہوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ کیسو آنند بھارتی نامی سنت 1971 میں سپریم کورٹ میں گئے۔ بالکل پاکستان جیسی صورتحال تھی۔ عدالت عظمی کے آدھے جج پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ آدھے ججوں کے نزدیک، ” ڈاکٹرائن آف بیسک سٹرکچر” کی رو سے سپریم کورٹ نظر ثانی کرنے کی مجاز ہے۔

ہمارے آئین کے باب دوم میں بھی پارلیمنٹ کے اختیارات محدود ہیں، لا محدود نہیں۔ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ پارلیمنٹ کے قوانین، طے کردہ اصول، کوئی قرارداد، باب دوم کی حد کے اندر ہے یا نہیں۔ اس کا تعین کون کرے گا کہ پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے یا نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اندرا گاندھی حکومت کی دو ترامیم منسوخ کر دی تھیں۔ یہاں بھی باب دوم کی رو سے سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ہر قانون پر عمل درآمد کی مجاز ہے۔ خاص طور پر، ڈاکٹرائن آف بیسک سٹرکچر، پارلیمنٹ پر چیک قائم کرتا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن ہے کیا؟ دراصل ہٹلر نے اپنے نظریے کی ترویج، خالص جرمن نسل کی اٹھان کے لیے عدالت میں بھی جرمن نسل پرست جج بٹھا دئیے تھے، آئین بھی نسل پرستوں کا محافظ تھا، اس میں بدلاؤ کے لیے ” سپریم کورٹ کے بنیادی اختیارات” کا فلسفہ دنیا بھر نے تسلیم کیا۔ ہم کسی “انڈے” میں قید نہیں، یہ فلسفہ ہمارے ہاں بھی مؤثر ہے۔ اسی فلسفے کے تحت لاہور ہائی کورٹ نے اپریل 1977ء میں لگائے گئے بھٹو مرحوم کے مارشل لاء کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جج صاحبان کتنے اختیارات سرنڈر کرنا چاہتے ہیں، یہ ہر جج کی اپنی سوچ ہے۔ 1977ء میں بھی سندھ ہائی کورٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں مارشل لاء برقرار رکھا تھا۔

اب پھر ہندوستان چلتے ہیں۔ ہندو سنت کے مقدمے پر سپریم کورٹ تقسیم تھی۔ شومئی قسمت، اندرا گاندھی کے حامی جج، ایچ ایم بیگ بیمار پڑ گئے۔ حکومت نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے ٹھینگا دکھا دیا۔ یہ سنتے ہی بیگ صاحب بستر علالت سے اٹھ کر کرسی عدالت پر جا پہنچے۔ عددی کھیل میں اندرا گاندھی کو شکست ہوئی۔ 7 کے مقابلے میں 6 سے عدالت نے آئینی ترمیم کے اختیارات پر روک لگا دی۔ تاہم، خلاف فیصلہ دینے والے چیف جسٹس شری سکری کو بہت کچھ بھگتنا پڑا۔ اندرا گاندھی کے حق میں فیصلہ دینے والے تین جج اوپر تلے چیف جسٹس بنے۔ انصاف کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

پاکستان میں بھی آئین ہمارے مزاج کے مطابق نہیں۔ جنرل (ر) ضیاء الحق نے کہا تھا: آئین کیا ہے، 18 صفحات کا چیتھڑا ہے، جب چاہوں پھاڑ کے پھینک دوں۔ اس وقت، آئین کے محافظین اس نقطہ پر بہت کسمسائے تھے، مگر اب؟ اسحاق ڈار کی باتیں آئین شکنی سے بھی آگے ہیں۔ بہت آگے۔

ہمارے ہمسائے میں جی 20 کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، دنیا کے حکمران دورے کر رہے ہیں، دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ عالمی حالات سے،  ارد گرد بنے جانے والے جال سے قطع نظر، ہماری اقلیتی حکومت اور “اقلیتی اپوزیشن” 21 ارب روپے کیلئے ماری ماری پھر رہی ہے۔ نا سمجھی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، حب الوطنی کا تقاضا ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، ان کے پاس جانے کے سوا کوئی حل نہیں۔

صہیب مرغوب قومی صحافت کا اہم نام ہیں، 36 برس روزنامہ جنگ کے انچارج میگزین اور ایڈیٹر میگزین رہے۔ساڑھے چار برس روزنامہ دنیا کے میگزین ایڈیٹر رہے۔ ہفتہ وار میگزین میں متنوع موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے ۔بین الاقوامی امور اور بھارت کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین12 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان14 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان16 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین