پاکستان

الزامات ثابت ہونے کے بعد ہی فیض حمید کو حراست میں لیا گیا ہوگا، رانا ثناء اللہ

Published

on

پاکستان مُسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثنا اللہ نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری پر کہا کہ ’اس عمل کی وجہ سے فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔‘

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ بڑا غیر معمولی واقعہ ہے اور اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سیاسی معاملات میں بڑے واضح اور کُھلے انداز میں مداخلت کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ  ہمارے علم میں یہ تو تھا کہ ٹاپ سٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر ایک انکوائری ان کے خلاف ہو رہی تھی۔ اور باقی بھی مختلف حوالوں سے ان کا نام آتا رہا ہے اور یقیناً وہ چیزیں بھی اس میں اثر انداز ہوئی ہوں گی لیکن انکوائری کے حوالے سے سب کو ہی علم تھا کہ یہ سلسلہ چل رہا ہے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ لیکن اس بات کا اندازہ بہت کم تھا لوگوں کو یہ اُمید کم تھی کہ اس لیول پر کوئی ایکشن ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایکشن ایک سنگِ میل ہے کہ فوج اور اس ادارے میں احتساب کا اتنا سخت نظام موجود ہے، اور اس عمل کی وجہ سے فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان مُسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو مُشکلات کا سامنا تھا کیا اس بات کا علم پی ایم ایل این کو تھا؟ اس کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’جو اقدامات پی ٹی آئی کی جانب سے نو مئی سے قبل اور اس کے بعد کیے گئے اور آج کل بھی جو اُن کی حکمتِ عملی ہے اب اس کی تفصیل میں جانا تو اس وقت ممکن نہیں مگر یہ بات اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اُن کا عمل دخل اس سب میں تھا۔ تاہم اس بارے میں پاکستان مُسلم لیگ ن نے کوئی انکوائری نہیں کی کہ میں یہ کہوں کہ یہ چیز ثابت ہو گئی ہے، تاہم یہ بات کوئی عام سی بات نہیں اس میں وزن ضرور ہے۔‘

حکومت کی جانب سے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی اس کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ میری اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں، میں یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ جو (فیض حمید) کو فوجی تحویل میں لیا جانا ہے اور جو چیزیں بھی اُن کے خلاف تھیں، سب الزامات ثابت ہو چُکے ہوں گے، کیونکہ اُن پر یہ سب باتیں ثابت ہونے کے بعد ہی اتنا بڑا قدم فوج کی جانب سے اُٹھایا گیا ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ حراست میں لینے کے بعد اب تحقیقات ہوں گی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج نے اس فیصلے کے بعد ایک مثال قائم کی ہے کہ فوج میں خود احتسابی کا ایک انتہائی سخت نظام موجود ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

کیا جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے ساتھ اور لوگ بھی اس معاملے میں شامل تھے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ وہ اکیلے تھے اس سب میں اُن کے ساتھ اور لوگ بھی شامل تھے کیونکہ ایک فردِ واحد اکیلا تو کُچھ بھی نہیں کر سکتا اور یہ سب باتیں بھی اس انکوائری میں سامنے آئی ہوں گی۔ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی سیاسی معاملات میں حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی خاصی دلچسپی ہوا کرتی تھی اور وہ بڑے واضح انداز میں کھل کر سیاسی معاملات میں دخل دیتے تھے اور کوئی بات چھپاتے بھی نہیں تھے۔ اب اس سب میں آپ کے سامنے فیض آباد دھرنے کی مثال موجود ہے جس میں ہونے والے معاہدہ پر انھوں نے خود دستخط کیے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version