ٹاپ سٹوریز

بھاٹی گیٹ میں آگ سے 10 ہلاکتیں، خدا کے لیے گھر سے نکلنے کے راستے پر سامان نہ رکھیں، خاندان کے سربراہ کی فریاد

Published

on

’ بابا جلدی گھر پہنچو، گھر میں آگ لگ گئی ہے، ہم جل رہے ہیں‘ رات دوبجے موبائل فون پر چھوٹے بیٹے کی کال ملی، میں اپنی والدہ کے گھر سے موٹرسائیکل لے کر بھاگا، دل چاہتا تھا موٹرسائیکل اڑنے لگے اور میں فوری پہنچوں، لیکن موٹرسائیکل کیا اڑتی، جگہ جگہ رکاوٹیں مل رہی تھیں، جیسے تیسے گھر پہنچا تو میری دنیا اجڑ چکی تھی، گھر سے زندگی روٹھ گئی تھی اور ہر طرف موت کے سائے تھے۔

یہ بات بابر علی نے اردو کرانیکل سے روتے ہوئے کی، بابر علی کے گھر کے 10افراد 12 جولائی کو گھر میں لگی آگ سے جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے، مرنے والوں میں چھ بچے بھی شامل تھے۔

غمزدہ بابر علی، جس نے اپنے پیاروں کے دس لاشے اٹھائے

بابر علی کے گھر آتشزدگی بڑا سانحہ ہے لیکن اس کے بعد کچھ ایسی باتیں پھیلیں جو بابر علی کے لیے تکلیف دہ تھیں اور عام آدمی بھی اس معاملے پربابر علی کو مشکوک سمجھ رہا تھا۔ اس تکلیف دہ صورتحال میں بابر علی سے فوری کچھ پوچھنا اور بات کرنا نامناسب تھا تاہم چند روز گزرنے پر اردو کرانیکل نے حالات کی وضاحت کے لیے بابر سے ملاقات کی۔

جب آتشزدگی کا واقعہ ہوا تو گھر کے سربراہ بابر علی اپنی بزرگ والدہ جن کی عمر 100 سال ہے، سے ملنے گئے تھے۔

بابر علی اندرون بھاٹی گیٹ میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے، ان کا بیٹا عادل حسین وکالت کر رہا تھا،ایک بیٹا دبئی میں ملازمت کر رہا تھا، بیٹی شادی شدہ تھی لیکن شوہر کے ساتھ کچھ تلخیوں کی وجہ سے 15 سال پہلے والدین کے گھر آگئی تھی اور اس کے بچے بھی اس کے ساتھ ننھیال آگئے تھے۔

بیٹا وکیل بنا اور ایک کو دبئی میں ملازمت ملی، اس کے ساتھ ہی بیٹی کے معاملات بھی اپنے شوہر کے ساتھ اچھے ہو گئے تھے اور اپنے گھر خوشی خوشی جانے کو تھی، اس کا سارا سامان باندھ کر ڈیڑھ مرلہ گھر کی تنگ سیڑھیوں میں رکھا تھا کیونکہ اگلی صبح سامان اس کے شوہر کے نئے بنائے گھر میں منتقل کرنا تھا، بابر علی کہتے ہیں انہیں یوں لگتا تھا ان کی زنگی کی مشکلات کٹ گئی ہیں اب زندگی حسین ہو جائے گی لیکن پھر سب تباہ ہو گیا۔

گھر میں آگ کیسے لگی؟

بابر علی کے گھر میں آتشزدگی کی ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا کہ تین منزلہ گھر کے گراؤنڈ فلور پر ریفریجریٹر کے ساتھ لگے سٹیبلائزر میں آگ بھڑکی جس نے آہستہ آہستہ پورے گھر کو لپیٹ میں لیا، لیکن بابر علی کہتے ہیں کہ گھر کی اوپری دو منزلیں ان کے زیراستعمال تھیں،رات کو ان کا چھوٹا بیٹا جو ساری فیملی کے ساتھ تیسری منزل پر سویا تھا، پانی پینے اٹھا اور نچلی منزل پر گیا تو آگ دیکھی وہ بھاگا اور بڑے بھائی کو بتایا جگایا، بڑا بھائی بھی اٹھ کر بھاگا، تنگ سیڑھیوں میں رکھے سامان کی وجہ سے وہ گراؤنڈ فلور پر نہ پہنچ سکا، گھر کے باہری گیٹ کا تالہ خراب ہونے کی وجہ سے اندر سے تالہ لگانا پڑتا تھا، چھوٹا بیٹا گرتا پڑتا دروازے تک تو پہنچ گیا لیکن اس کے پاس چابی نہیں تھی، لوہے کا دروازہ توڑ بھی نہیں سکتا تھا، اس نے دروازے کو گھونسے مکے مارے، شور سن کر محلے دار بھی آگئے۔

بابر علی کہتے ہیں محلے کے علی نام کے ایک بچے نے صورت حال کو بھانپ لیا اور گھر سے ہتھوڑی پیچ کس لایا اور دروازے کے نیچے سے میرے بیٹے کو دونوں چیزیں دیں، اس نے کسی طرح تالہ توڑا اور باہر نکلا لیکن تب تک گھر ایک خوفناک آگ کی لپیٹ میں تھا اور کسی کے اندر جانے یا پھر نکلنے کی کوئی صورت نہ تھی۔

ریسکیو ایک گھنٹہ دیر سے پہنچی

ریسکیو کے حوالے سے بابر علی نے کہا کہ میرا خاندان اسی ریسکیو کی تاخیر کی وجہ سے زندہ جل گیا۔  رات 1 بجکر 50 منٹ پر اہل علاقہ نے ریسکیو کو بلانا شروع کیا، کالز کیں مگر ریسکیو کا عملہ 2بجکر 40 منٹ پر پہنچا اور تب تک میرا پورا خاندان موت کے منہ میں جا چکا تھا۔

بابر علی کہتے ہیں ریسکیو اہلکاروں نے مجھے خود بتایا ہے کہ ہم لوگ پہلے بھاٹی سے  آ رہے تھے مگر سڑک بند تھی تو ضلع کچہری سے موڑ کاٹا، پھر ٹیکسالی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔

بابر علی سوال کرتا ہے کہ کیا یہ لوگ ایمرجنسی میں ون وے سے بھاٹی گیٹ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے؟ ان لوگوں کی تاخیر نے بربادی کی داستان رقم کی، میں انہیں معاف نہیں کروں گا، اپنے مولا سے ان کی شکایت کروں گا۔

بابر علی کے گھر آتشزدگی پر شکوک و شبہات

بابر علی کے گھر کے بالکل سامنے ایک گھر کی مکین خاتون نے دعویٰ کیا کہ بابر علی کے گھر آگ لگنے کی وجوہات وہ جانتی ہے لیکن صرف وزیراعظم شہباز شریف یا سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کو ہی بتائے گی؟ خاتون نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ یوں لگا جیسے گھر میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی ہو۔

اس حوالے سے بابر علی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں اور میرا بیٹا اس خاتون کے پاس خود گئے اور اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ جو کچھ تمہیں معلوم ہے ہمیں بتادو، ہماری مدد کرو، اگر کوئی آگ لگانے میں ملوث ہے تو اسے تلاش کر سکیں، اس نے قرآن پاک اٹھا کر کہا کہ اسے کچھ معلوم نہیں، وہ تو دراصل وزیراعظم اور ان کے بیٹے سے اپنے بچوں کی ملازمت کے لیے ملنا چاہتی تھی۔

آتشزدگی کے بعد ایک اور اور بات پھیلی کہ بابرعلی کے کچھ معاملات تھے جن کی وجہ سے اس کے گھر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی، یہ آگ بھی ایسے کسی معاملے کی وجہ پر لگی۔ بابر علی نے کہا کہ یہاں ہمارے محلے میں کوئی دس گھروں میں فائرنگ ہوئی اور پانچ گھروں کے گیٹ پر اب تک گولیوں کے نشان موجود ہیں، بابر علی کی بات کی تصدیق محلہ داروں نے بھی کی۔

بابر علی نے کہا کہ خدا کے لیے ایسی باتیں مت اڑائیں جس سے میرے بچوں کی روحیں بے چین ہوں، میڈیا بھی من گھڑت باتیں مت چلائے جس سے سے ہماری دل آزاری ہو۔

شک و شبہ کی کہانیوں پر پولیس کا موقف

ایس ایچ او تھانہ بھاٹی گیٹ نے کہا کہ واقعہ کے بعد مدعی مقدمہ بابر علی کو بننا تھا جو کہ خاندان کا سربراہ ہے، تاہم ان کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں اور ان کو کسی پر شک بھی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کسی نے ایسا کیا ہو گا لہذا پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی، تاہم اپنے طور پر تحقیقات کیں مگر یہ صرف ایک اتفاقیہ حادثہ ہی نکلا۔

ایس ایچ او بھاٹی گیٹ سجاد اردو کرانیکل سے بات کر رہے ہیں

قانونی نکتہ نظر

اس حوالے سے اشفاق ایڈووکیٹ سے قانونی رائے پوچھی گئی کہ اتنی ہلاکتوں کے بعد پولیس کیا اسے حادثہ قرار دے کر کیس بند کرسکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس مقدمے کے کئی پہلوہیں، مکان کی ناقص وائرنگ جو انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی، اداروں کی غفلت، اس کے علاوہ اگر محلہ دار یا عام شہری بھی تحقیقات کے لیے کہہ سکتا ہے۔

اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں تحقیقات کا نظام ہے نہ رواج، جب تک کوئی مدعی نہیں بنتا پولیس کچھ نہیں کرتی، مجھے متاثرہ خاندان سے ہمدردی ہے۔

ہنگامی اخراج کا رستہ کھلا رکھیں

بابر علی نے کہا کہ میں نے تو خاندان کھو دیا لیکن میں ہر ایک سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا گھر داخلے کے راستے کھلے رکھیں، ہنگامی نکلنے کی راہ پر کوئی سامان یا رکاوٹ نہ ڈالیں،ہم نے اس کوتاہی کا بہت بھاری خمیازہ بھگتا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version