ٹاپ سٹوریز
جیل میں26 سال، موت کی9 تاریخیں ،3 بار آخری کھانا، امریکی قیدی چوتھی بار بھی بچ گیا
جیل کی سلاخوں کے پیچھے26 سال،موت کے لیے مقرر کی گئیں9 تاریخیں، زندگی کا آخری سمجھ کر3بار کھایا جانے والا کھانا اور2 تحقیقات جن سے اس کو سنائی گئی سزا پر شکوک پیدا ہوئے،اوکلاہاما کی جیل میں سزائے موت کا قیدی رچرڈ گلوسپ گزشتہ روز جمعہ تک اپنے آخری دن گن رہا تھا لیکن امریکی سپریم کورٹ کے حکم امتناع نے سزائے موت پرعمل کو چوتھی بار ٹال دیا۔
امریکا کی سپریم کورٹ نے اٹھارہ مئی کو رچرڈ گلوسپ کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔ یہ ایک غیرمعمولی فیصلہ ہے، عام طور پر سپریم کورٹ اس طرح حکم امتناع جاری نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ کا حکم امتناع اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک عدالت یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ آیا اس مقدمہ کو نئے سرے سے چلایا جائے یا اس پر عائد رفد جرم کو ہی ختم کردیا جائے۔
میرے لیے یہ آسان ہے کیونکہ میں یہ کئی بار بھگتا، رچرڈ گلوسپ
رچرڈ کو انیس سو ستانوے کے ایک قتل کے مقدمہ میں موت کی سزا سنائی گئی لیکن رچرڈ اب بھی صحت جرم سے انکاری ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے امریکی میڈیا نے رچرڈ کے انٹرویوز کیے۔رچرڈ سے اس کی اس غیرمعمولی سزا، حالات اور متوقع پھانسی کے متعلق پوچھا گیا تو رچرڈ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کسی اور انسان کی نسبت یہ میرے لیے آسان ہے کیونکہ میں نے یہ بہت بار کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ اسے ہلکا لیں، میں چاہتا ہوں کہ لوگ دیکھیں کہ یہ سب کتنا سنگین ہے اور اس سے لوگوں کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا یقین اتنا مضبوط ہے کہ کہ اس نے مجھے اس سب سے گزرنے کی ہمت بخشی۔
جیل کی چار دیواری سے باہر بیوی کے ساتھ نئی شروعات کی امید
رچرڈ کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے، اسے یقین ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ اوکلاہاما ریاست کی جیل کی چار دیواری سے باہر نئی شروعات کر سکے گا۔ رچرڈ کی شادی پچھلے سال ہی ہوئی ہے اور ان کی اب تک کی ازدواجی زندگی فون کالز اور جیل کی ملاقاتوں تک محدود ہے۔
رچرڈ کی زندگی بچانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
رچرڈ کے حامیوں اور اس کی زندگی بچانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن میں اس کی بیوی اور وکیلوں کے علاوہ میڈیا سٹار کم کردشن، ٹی وی ٹاک شو کے میزبان ڈاکٹر فل میک گرا، معصوم سمجھے جانے والے قیدیوں کے لیے سرگرم گروپ کے رکن جیسن فلوم، اوکلاہاما کے اٹارنی جنرل اور دونوں بڑی امریکی سیاسی جماعتوں کے ریاستی اسمبلی کے ارکان کا باسٹھ رکنی گروپ، اب بھی امید لگائے ہوئے ہے کہ رچرڈ کی زندگی بچ جائے گی۔ یہ سب لوگ رچرڈ کے ارتکاب جرم اور اسے سنائی جانے والی سزا کے عمل پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ریاستی اسمبلی کے رکن کیون میک ڈگلس کہتے ہیں کہ اس ملک کی تاریخ میں اب تک کسی ایسے شخص کو سزائے موت نہیں دی گئی جس کے مقدمہ میں ریاست اور ملزم کے دفاع دونوں متفق ہوں کہ ملزم کو منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں ملا۔ ریاستی اسمبلی کے ارکان نے گورنر اوکلاہاما کیون سٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتوں کو رچرڈ گلوسپ کے مقدمہ کا دوبارہ جائزہ لینے کی ساٹھ روز کی ایک اورمہلت دی جائے۔ گورنر کیون سٹ اور اٹارنی جنرل دونوں کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔
قتل کس نے کیا؟ رچرڈ پر فرد جرم کیسے لگی؟
جنوری انیس سو ستانوے میں سات بچوں کے باپ، چون سالہ وین ٹریز کو اوکلاہاما کے ایک موٹیل کے کمرے میں بیس بال بیٹ سے تشدد کر کے قتل کیا گیا، یہ بیس بال بیٹ ایک انیس سالہ جسٹن سنیڈ کی ملکیت تھا۔ جسٹن سنیڈ نے قتل کا اعتراف کیا لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے یہ اعتراف جسٹن سنیڈ کو سزائے موت سے بچانے کے ایک معاہدہ کے تحت حاصل کیا تھا، جسٹن سنیڈ نے قتل کا تو اعتراف کیا لیکن ایک پراسکیوٹر نے اس قتل کو عدالت میں اس طرح پیش کیا کہ اس قتل کے لیے اسے رچرڈ گلوسپ نے جسٹن سنیڈ کو کرایہ پر حاصل کیا تھا، جسٹن نیڈ نے رچرڈ گلوسپ کے خلاف گواہی دی، رچرڈ جس کے مجرمانہ ریکارڈ میں صرف ایک بار ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ کا واقعہ درج تھا، اسے جون انیس سو اٹھاسی میں سزائے موت سنادی گئی، اس سزاکو غیرمؤثر دفاع کی وجہ سے معطل کیا گیا لیکن دو ہزار چار میں پھر مقدمہ چلا اور اسے پھر سزائے موت سنادی گئی۔ اس سزا کے بعد ان برسوں میں کئی بار اس سزا پر سوال اٹھائے گئے۔
ریاست نے شواہد جان بوجھ کرشواہد تلف کیے؟
ایک آزادانہ تحقیقات میں مقدمہ سے پہلے ریاست کی جانب سے شواہد کو جان بوجھ کر ضائع کرنے، پولیس کی ناکافی تفتیش کے ساتھ ساتھ جسٹن سنیڈ کی مشکوک گواہی کے معاملات سامنے آئے، اس آزادانہ تحقیقات کی تشکیل ریاستی اسمبلی نے کی تھی اور کمیشن بنایا تھا۔ کمیشن رپورٹ میں جسٹن سنیڈ کے جیل سے لکھے گئے خطوط بھی شامل کئے گئے جن میں سے ایک خط اس نے اپنے وکیل کو بھی لکھا تھا اور اپنی گواہی واپس لینے کے بارے میں پوچھا تھا۔ اوکلاہاما پبلک ڈیفنڈر آفس اس کیس میں جسٹن سنیڈ کی وکالت کا ذمہ دار تھا، امریکی ٹی وی نے اس سے رابطہ کیا تو اس آفس نے جوابدینے سے معذرت کی۔کمیشن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مکمل ریکارڈ سامنے ہوتا تو کوئی معقول جج رچرڈ کو فرسٹ ڈگری قتل کا قصوروار نہ ٹھہلراتا۔
دوسری آزادانہ تحقیقات میں بھی کئی اور مجموعی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ گلوسپ کی سزا ختم کر کے نئے سرے سے مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ اس بنا پر اٹارنی جنرل نے رچرڈ کی سزا ختم کرنے کی درخواست دائر کی لیکن اوکلاہاما کورٹ آف کریمنل اپیلز نے پچھلے مہینے اپیل پانط صفر سے مسترد کردی۔
آخر کوئی کسی کو معصوم کیوں تصور نہیں کرسکتا، رچرڈ کا سوال
سنگین جرائم کی اپیلیں برسہا برس چلتی ہیں اور بہت سے مقدمات سپریم کورٹ تک پہنچ کر ختم ہوتے ہیں،غلط سزائیں بھی ثابت ہوتی ہیں،سزائے موت انفارمیشن سنٹر کے مطابق انیس سو تہتر سے اب تک ایک سو اکانوے افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔
رچرڈ سوال کرتا ہے کہ اس ملک میں بے شمار لوگوں کو معافی ملی، بہت سوں کو غلط طور پر سزا ہوئی، آخر کوئی یہ تصور کیوں نہیں کر سکتا کہ کوئی معصوم بھی ہوسکتا ہے۔
پیرول بورڈ سے معافی کی اپیل مسترد
پچھلے ہفتے اوکلاہاما کے’’ پارڈن اینڈ پیرول بورڈ‘‘ میں اٹارنی جنرل خود پیش ہوئے اور رچرڈ کی معافی کی پرزور وکالت کی، اٹارنی جنرل کا کسی سزائے موت کے ملزم کی معافی کے لیے خود پیش ہونا غیرمعمولی ہے۔ اس سب کے باوجود بورڈ نے معافی کی سفارش سے انکار کیا۔
رچرڈ کی معافی کی اپیل کی مخالفت میں مقتول وین ٹریز کا خاندان تنہا کھڑا تھا، وین ٹریز کی بیوہ نے بورڈ کی اس کارروائی کو اس زخم سے تشبیہ دی جو بھر تو گیا لیکن کھرنڈ کو بار بار کھرچا جا رہا ہے۔ واین ٹریز کی بیوہ نے بورڈ کے سامنے بیان دیا کہ انہیں امید ہے کہ مقتول کے ساتھ انصاف ہوگا اور ان کے خاندان کے بیانات پر غور کیا جائے گا۔
بورڈ پانچ رکنی ہے جس نے دو دو کے تناسب سے فیصلہ دیا، پانچویں ممبر نے خود کو کارروائی سے الگ کر لیا تھا کیونکہ اس رکن کی اہلیہ نے رچرڈ گلوسپ پر دو بار چلائے گئے مقدمات میں سے ایک میں اس کی پیروی کی تھی۔ اس طرح معافی کی اپیل مسترد ہو گئی۔
اوکلاہاما کے گورنر بورڈ کی سفارش کے بغیر معافی کا فرمان جاری نہیں کر سکتے تاہم گورنر عارضی طور پر سزا پر عمل کو وقتی طور پر روک سکتے ہیں اور وہ دو بار ایسا کرچکے ہیں۔
آخری عدالتی جنگ ابھی تک جاری
اب ایک بار پھر رچرڈ سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے بعد دسویں بار موت کو چکمہ دے چکا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ حکم امتناع جاری نہ کرتی تو اٹھارہ مئی رچرڈ کا اس دنیا میں آخری دن ہوتا۔ اس حکم امتناع سے پہلے سزائے موت پر عمل کی کاغذی کارروائی ہو چکی تھی۔ رچرڈ سے اس کی موت اور تدفین کے متعلق کاغذات پر دستخط کرائے جا چکے تھے۔ موت سے پہلے وہ آخری کھانے میں کیا چاہتا تھا اس سے متعلق بھی پوچھا جا چکا تھا۔ اور یہ بھی طے ہو چکا تھا کہ وہ اپنی سزا پر عمل درآمد کے موقع پر کس کس کو مشاہدے کی اجازت دے گا۔
اب ایک بار پھر رچرڈ کو مہلت مل گئی ہے لیکن ایک طویل عدالتی جنگ باقی ہے، دیکھنا ہوگا اب تقدیر اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے