ٹاپ سٹوریز
فی فیکٹری 30 ہزار سے ایک لاکھ روپے رشوت، محکمہ ماحولیات نے لوٹ سیل لگادی، سپیشل برانچ کی رپورٹ
لاہور میں سموگ کے تداراک کے لیے اقدامات کی بجائے آلودگی کا سبب بنے والی فیکٹریوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے محکمہ ماحولیات کا بھانڈا پھوٹ گیا، سپیشل برانچ سپیشل برانچ نے فیکٹریوں سے ماہانہ بھتہ وصولی کی تفصیلات جمع کر کے حکومت کے حوالے کردیں۔
تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سینکڑوں فیکٹریوں سے ماہانہ وصول کرنے والے ماحولیات کے افسران ایک ماہ بعد بھی ہٹائے نہ جا سکے، ڈی جی ماحولیات نے ایکشن لینے سے صاف انکار کردیا۔
سکولوں کی بندش روکنے کیلئے پرائیوٹ مافیا کی جانب سے کروڑوں روپے محکمہ ماحولیات کے افسران میں تقسیم کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات کے تمام ڈپٹی ڈائریکٹرز ،ڈائریکٹرز، انسپکٹر اور دیگر عملہ متعدد فیکٹریوں سے ماہانہ 30 ہزار سے 60 ہزار اور ملوں سے 1 لاکھ سے زائد وصول کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ،کول ڈائنگ کماہاں روڈ، نائیس انٹر نیشنل فیروز پور روڈ ،جسٹر ہاف پرائیویٹ لمیٹڈ ،کمبائینڈ فیبرکس،کمفرٹ فیبرکس،میاں واشنگ،فرسٹ پیپر، گملے بنانے والی فیکٹریاں ،سلک ٹیکسٹائل ،عاصم سپننگ ،حق ربڑ،مولو ایکسپورٹ ،ہنڈا فیکٹری ،رمضان پلانٹ ،انساف سٹیل، عباس سٹیل ،فرید سٹیل سمیت سینکڑوں فیکٹریاں ماہانہ رشوت دے کر ایسا ایندھن استعال کر رہی ہیں جو نہ آلودگی کا باعث بنتا ہے بلکہ اس کا دھواں اس قدر زہریلا ہے کہ وہ مہلک امراض کا سبب بن رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے سموگ کے اثرات کو کم رکھنے اور کم عمر بچوں کو بچانے کے لئے سکولوں کی بندش کا فیصلہ کیا گیا جس کے لئے حکومت پنجاب نے محکمہ ماحولیات سے رپورٹ طلب کی۔
محکمہ ماحولیات نے محکمہ تعلیم میں ماتحت عملہ کی ملی بھگت سے پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنوں کے نمائندوں سکول مالکان سے ملی بھگت کر کے سکول بند ہونے سے روک دیئے اور رپورٹ تیار کرائی کہ بندش کی بجائے بچوں کو ماسک پہنا دیئے جائیں،سکول بند ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور صرف یہ لکھنے کے کروڑوں روپے کما لئے۔
سردیوں سے قبل ہی سموگ کی روک تھام کے حوالے سے ہائیکورٹ لاہور کی جانب سے گزشتہ سال سے ہی ہدایات جاری کی گئیں تھیں مگر محکمہ ماحولیات غفلت کی نیند سوتا رہا اور صرف کاغذی چالانوں پر خود کروڑوں کمانے کے بعد ہائیکورٹ کو سب اچھا کی رپورٹ پیش کر دی ۔اس کے برعکس لاہور ایک بار پھر سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہورہا ہے۔
لاہور کے گردونواح میں قائم فیکٹریاں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان میں سے اکثریت غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں،ان میں استعمال ہونے والا میٹریل نہ صرف غیر معیاری ہے بلکہ مہلک ہے جس سے فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
محکمہ ماحولیات سے رابطہ کیا گیا تو ذمہ داران کا کہنا تھا کہ ہم چالان کر کے آتے ہیں مگر معلوم نہیں کیسے لیبارٹری والے صرف دو گھنٹے میں ان کو کھولنے کا اجازت نامہ جاری کر دیتے ہیں، ہم اپنا کام مکمل کرتے ہیں اب یہ لیب والوں کا کام ہے کہ وہ بغیر سیمپلنگ کئے ان کو نہ کھلنے دیں۔
ڈی جی ماحولیات نے کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے حوالے سے موقف دینے سے انکار کر دیا۔