Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

آرٹ

فکری مباحثے، فنون لطیفہ کے سیشن اور نئی ایجادات پر پرمغز گفتگو کے ساتھ 5 واں ادب فیسٹیول اختتام پذیر

Published

on

پانچویں ادب فیسٹیول پاکستان2023 کی جانب سے فیسٹول کے دوسرے اورآخری دن ہیبٹ سٹی میں ادبی اور فکری مباحثوں کا سلسلہ دراز رہا جس سے فیسٹول کے شرکاءکو مفید ‘ حیران کن ‘چیلنج اور ثقافتی آگہی میسر آئی۔ ادب فیسٹیول نے شرکاء کو لاتعداد ادبی سرگرمیوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جس کے ذریعے کتابوں کی رونمائی، روشن خیال مباحثے ‘فنون لطیفہ سے متعلق سیشنز ‘بہت سے نئے اور اختراعی امور‘ دل کی بات کہنے کے لیے حقیقی اظہار خیال کا ذریعہ میسر آیا

۔

دن کا آغاز سرمد علی نے ایمبیسڈر اور ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ ممتاز بلوچ کا ایک زبردست انٹرویو لے کر کیا بعد ازاں “آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی حقیقت”جیسے اہم موضوع پر سید عرفان حیدر‘ رابیل وڑائچ اور بینا شاہ نے اظہار خیال تھا‘ اس سیشن کے موڈریٹر تھے عمر خان ۔

موڈریٹر نعمان نقوی کے زیر انتظام منعقدہ سیشن “ہیومن سائنسز ایجوکیشن ان دی انتھروپوسین ” مباحثے میں محمد حارث، شمع ڈوسا اور انعم آسی نے عصری مسائل، ماحولیاتی پائیداری اور سماجی انصاف سے نمٹنے میں تعلیم کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر استاد اور فنکار عاطف بدر اور یاسمین معتصم “ادب کی دستک”کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں ڈرامہ پڑھنے اور داستان گوئی کے اپنے ہنر کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔سیشن “ایک نسل کی تعمیر: کیا اسکول اپنا امتحان پاس کر رہے ہیں؟ “کے مقررین سلمیٰ عالم، رانا حسین، حسن خان اور فیصل مشتاق تھے جنہوں نے اسکولوں کے جدید کردار اور ذمہ دار شہریوں کی تشکیل پر ان کے اثرات کا تنقیدی جائزہ لے کر حاضرین سے داد سمیٹی ۔

 ایک اور انتہائی معلوماتی سیشن بعنون “بریکنگ باونڈریز: انسپائرنگ مین ان ہیومینٹیز” کے مقررین جہاں آرا، محمد اشعر خان، ریحان شیخ اور حمزہ بن سجاد تھے جنہوں نے دقیانوسی تصورات کے خاتمے اور سماجی علوم کے میدان میں لڑکوں کو فروغ دینے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سیشن کے موڈریٹر انعام ندیم تھے ۔

ایک فکر انگیز مکالمے کے مقررین کشور ناہید، افضل سید اور افتخار عارف تھے جس کی قیادت زہرہ نگاہ کررہی تھیں جب کہ موڈریٹر رتھے شعیب ارشد ۔ مقررین نے پاکستان میں مشاعرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی‘اس گفتگو کا مقصد لوگوں کو اس امر سے روشناس کرانا تھا کہ آیا مشاعرے محض ایک پرلطف سرگرمی ہیں یا پھر ہمارے معاشرے میں فکری اور علمی مباحثوں میں بامعنی حصہ ڈالتے ہیں۔اگلا سیشن “سوشل میڈیا بمقابلہ روایتی میڈیا “تھا جس پر شہباز رضوی ‘ سرمد علی اور بلال احمد میمن نے اظہار خیال کیا۔کشور ناہید کی تازہ ترین کتاب “تار تار پیرہن “پر نور الہدیٰ شاہ، کشور ناہید اور سید جعفر احمد نے روشنی ڈالی جبکہ کشور ناہید نے اپنی کتاب سے کچھ اقتباست پیش کئے ۔شرکاء مقررین انجم ہلائی، طالب کریم، انظر خلیق اور معید یوسف کے ساتھ “ہائر ایجوکیشن”پرمنعقدہ سیشن سیشنز سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے ۔ اس سیشن کی نگرانی شہناز وزیر علی کررہی تھیں ۔اس موقع پر “اے فارسٹ ان پیرل”جس میں ایک دستاویزی فلم اور “ایج آف ڈیلٹا” کی کہانیوں کی نمائش کی گئی ۔ پریزینٹر طارق سکندر قیصر اور موڈریٹر امبر خیری نے مینگرووز پر بحث کی قیادت کی۔شہباز تاثیر کی کثیر الاشاعت کتاب”اے میمور آف فیتھ‘فیملی اینڈ فائیو ائیرز ان کیپٹی ویٹی”کے سیشن میں رازی احمد، فرامجی من والا اور عمیر عزیز سعید کے ساتھ قید میں اپنے تجربات شیئر کیے۔

کہانی سنانے، میڈیا اور معاشرے کی ذہنی صحت کے باہمی تعلق کو تلاش کرتے ہوئے، مقررین ڈاکٹر عائشہ میاں اور زیاد ظفر نے عالیہ اقبال نقوی کے زیر انتظام گفتگو میں حصہ لیا۔ادب‘ تعلیم اور معاشرے پر مشتمل سیشنز شرکاءکی دلچسپی کا مرکز تھے جن میں سید کلیم امام کی کتاب”ان پرسوٹ آف این ایتھیکل اسٹیٹ: ریفلیکشنز آف اے پولیس چیف”میں غازی صلاح الدین نے مصنف سے گفتگو کی۔ فیسٹول کے دوسرے دن کی تیسری کتابی بحث عشرت حسین کی تازہ ترین کتاب ” ڈیولپمنٹ پاتھ وے :انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش 1947-2022 پر کی گئی ۔اس سیشن کے موڈریٹر احسان ملک تھے جب کہ شریک گفتگو عشرت حسین، محمد اظفر احسن، اور سلیم اللہ تھے ۔معروف شاعر تنویر انجم کے ساتھ منعقدہ سیشن میں ان کیساتھ ناصرہ زبیری اور سید کاشف رضا کی دلچسپ گفتگو منظر عام پر آئی‘ جب کہ تنویر انجم نے اپنی نظمیں اور غزلیں بھی پیش کیں ۔زاہد حسین کی کتاب “فیس ٹو فیس ود بینظیر “پر ایک سیشن میں شیری رحمان، رضا ربانی، غازی صلاح الدین اور مصنف نے بینظیر کی زندگی اور ان کی میراث پر گفتگو کی۔

کتابوں کے دیگر سیشنز میں عمر شاہد حامد کی کتب “بیٹریال “اور”قیدی” پر انعام ندیم اور عائشہ باقر نے بات کی ۔”پاکستان کی زرخیز زبانیاں” پر امر سندھو، سانی سید، مخم خٹک اور عرفانہ ملاح کا اظہار رائے سامنے آیا جس کے موڈریٹر وحید نور تھے جب کہ اس سیشن کی صدارت نور الہدیٰ شاہ نے کی، جس میں پاکستانی زبانوں کی ترقی و نمو، ان کے سماجی اثرات، اور تیزی سے بدلتے وقت میں ان کے مستقبل پر بات کی گئی ۔اختتامی مراحل میںعبدالصمد خان اچکزئی کی سوانح عمری “مائی لائف اینڈ ٹائمز” پیش کی گئی جس ان کے صاحبزادے سابق گورنر بلوچستا ن محمد خان اچکزئی نے پشتو سے ترجمہ کیا ہے۔ اس سیشن میں میں مصنف کے پوتے اور مترجم کے بیٹے ایاز اچکزئی کے ساتھ عمیر احمد خان بھی موجود تھے۔ گرپس تھیٹر کی جانب سے “آرٹ یا آٹا”کے عنوان سے دی جانے والی پرفارمنس کے ساتھ شام اپنے عروج پر پہنچ گئی‘ جس میں اداکار خالد انعم، فائزہ قاضی، خلیفہ شجیرالدین ، امید ریاض اور عائشہ شیخ کی جانب سے مرحوم عمران اسلم کو خراج تحسین پیش کیاگیا۔ادب فیسٹیول پاکستان اپنی جاندار ادبی تقریبات میں فکری تبادلے ،متنوع سیشنز، پرفارمنسز اور کتابوں کی رونمائی کے ذریعے پاکستان کے ثقافتی سرمائے کی بقاءکے لیے ایک متحرک پلیٹ فارم کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تقریب لائٹ اسٹون پبلشرز، گیٹز فارما، برٹش کونسل، حبیب یونیورسٹی، ایلانس فرانسز، ایمبیسیڈ ڈی فرانس پاکستان، جنگ میڈیا گروپ، بینک آف پنجاب، ایڈ لیب پاکستان، دی لٹل بک کمپنی ، فینومینا، رنگون والا فاو ¿نڈیشن اور انفاق فاو ¿نڈیشن جیسے قابل قدر اسپانسرز اور شراکت داروں کے فراخدلانہ تعاون سے منعقد ہوئی جنہوں نے پاکستان میں فروغ پذیری ادبی اور ثقافتی منظر نامے کو فروغ دینے کے اپنے عزم پر زور دیا۔

ساجد خان کراچی کے ابھرتے ہوئے نوجوان صحافی ہیں،جو اردو کرانیکل کے لیے ایوی ایشن،اینٹی نارکوٹکس،کوسٹ گارڈز،میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی،محکمہ موسمیات،شہری اداروں، ایف آئی اے،پاسپورٹ اینڈ امگریشن،سندھ وائلڈ لائف،ماہی گیر تنظیموں،شوبز اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں کور کرتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین