Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

ووٹر کی امیدیں، آئی ایم ایف کی شرائط،بجٹ حکومت کے لیے دردسر، بجٹ آئی ایم کا ہوگا، مفتاح اسماعیل

Published

on

ریکارڈ مہنگائی،ادائیگیوں کا عدم توازن اور زرمبادلہ ذخائر کی کمی کے شکار پاکستان کی حکومت کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کی تسلی کے لیے  معاشی اصلاحات اور فوری درپیش الیکشن میں ووٹرز کی خوشنودی کے درمیان توازن کا امتحان درپیش ہے۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام اس ماہ ختم ہونے کو ہے اور ابھی تک عالمی ادارے سے ڈھائی ارب ڈالرز جاری نہیں ہو پائے۔

پاکستان میں عام انتخابات نومبر میں ہونا ہیں، ان انتخابات کے ساتھ ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کی امیدیں وابستہ ہیں، یہ سیاسی بحران ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان حکومت کے خاتمے سے شروع ہوا۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خبر ایجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ضروری ہے، آئی ایم ایف کے بغیر اگلے مالی سال میں پاکستان کا صورتحال سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا، اس لیے مجھے یقین ہے کہ حکومت ایسا بجٹ دے گی جو آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات کے مطابق ہوگا۔

پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 6.5 ارب ڈالر کے پروگرام میں ہے اور 1.1 ارب ڈالرز کی قسط پر معاملات نومبر سے التوا میں ہیں، ادائیگیوں کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے یہ رقم پاکستان کی ضرورت ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے خاتمے کے بعد بھی پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو مالیاتی ذمہ داریوں پر ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے بیل آؤٹ پیکج کی بھی ضرورت ہوگی۔

سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ ذخائر صرف ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں، مئی میں مہنگائی کی شرح 37.97 فیصد سے بھی بڑھ گئی۔

منگل کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اعلان کیا کہ ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے ہوگا، جبکہ ملک میں اگلے سال مہنگائی کی شرح 21 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں کچھ ریلیف اقدامات کا اعلان کرے گی، بعد میں چاہے وہ اقدامات واپس لے لیے جائیں۔

کراچی کے ایک معاشی ماہر فہد رؤف نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور زرعی شعبے کے لیے پیکج کی توقع ہے، جس سے پہلے سے بہت محدود ٹیکس بیس پر مزید بوجھ پڑے گا، ٹیکس بیس بڑھانے کے چند ایک اقدامات بھی شامل ہوں گے، بینک اور ٹیکس ادا کرنے والی صنعتوں پر بوجھ بڑھے گا،15 سے زیادہ شعبوں پر ایک بار پھر 10 فیصد سپرٹیکس لگایا جائے گا۔

معاشی ماہر شکیب شیرانی نے کہا کہ بجٹ الیکشن کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے گا اور جولائی، ستمبر کی سہ ماہی میں ہی معاملات مزید مشکل ہوجائیں گے اور آئی ایم ایف مدد کی ضرورت پہلے سے بڑھ جائے گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین