دنیا
فرانس: پرتشدد مظاہروں کے ایک ہفتہ بعد پابندی کے باوجود پولیس تشدد کے خلاف احتجاج، سیکڑوں نوجوان سڑکوں پر نکلے
فرانس میں ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر پرتشدد مظاہروں کے ایک ہفتے بعد سیکڑوں مظاہرین نے منصوبہ بند مظاہروں پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کی اور سڑکوں پر نکل آئے، پولیس نے پیلس ڈی لا ریپبلک کے سامنے جمع سیکڑوں مظاہرین کو دھکیل کر ایک اور بڑی شاہراہ پر جانے پر مجبور کیا جہاں سیکڑوں نوجوان پرامن مارچ کرتے نظر آئے تاہم پولیس نے دو گرفتاریوں کا اعلان کیا ہے۔
اس تازہ مظاہرے سے پہلے پولیس نے اپنی ویب سائٹ پر ایک فیصلہ شائع کیا تھا جس میں ’ کشیدگی کے تناظر‘ میں پہلے سے طے شدہ مظاہروں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
مظاہرین میں شامل ایک ہیلتھ ورکر فیلکس بوواریل نے کہا کہ فرانس میں اب بھی آزادی اظہار موجود ہے لیکن حیران کن طور پر اجتماع کی آزادی خطرے میں ہے،جو پریشان کن ہے۔
حکام نے شمالی شہر للی میں مظاہروں پر پابندی برقرار رکھی جبکہ مارسیلی میں ایک مارچ نکالا گیا لیکن اس کا روٹ سٹی سنٹر سے دوسری جانب موڑ دیا گیا۔
آج ہفتہ کے روز ہونے والے مظاہروں کی اپیل 2016 میں پولیس حراست میں ہلاک ہونے والی سیاہ فام فرانسیسی لڑکی اڈانا ٹریور کے خاندان نے کی تھی جس کا مقصد پولیس تشدد کے خلاف احتجاج تھا۔
فرانس میں نسل پرستی ایک حقیقت
فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں سمیت تمام حکام ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ادارہ جاتی بنیادوں پر نسل پرستی کی تردید کرتے ہیں۔
لیکن فرانس میں نسل پرستی ایک حقیقت ہے جس کا اظہار پچھلے ہفتے نوجوان کو قتل کرنے والے پولیس افسر کے لیے فنڈ ریزنگ سے ہوتا ہے، قاتل پولیس افسر کے لیے اب تک 1.47 ملین یوروز جمع کئے جا چکے ہیں جو 16 لاکھ ڈالر کے مساوی ہیں جبکہ مقتول نوجوان کے خاندان کے لیے اب تک 3 لاکھ 52 ہزار یورو اکٹھے ہوئے ہیں جس پر فرانس کے لبرل عوام میں شرمندگی اور غصے کا احساس پیدا ہوا ہے۔
بائیں بازو کے سیاستدانوں نے قاتل پولیس افسر کے لیے فنڈریزنگ کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطلبہ کیا ہے جبکہ دائیں بازو کے سیاستدان پولیس کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس کو روزانہ تشدد کا سامنا ہے۔