ٹاپ سٹوریز

حریفوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے کی سوچ، صدر اردوان کی کامیابیوں کا راز

Published

on

صدر رجب طیب اردوان بیس سالہ اقتدار کے بعد مزید پانچ سال صدر رہنے کا حق حاصل کرچکے ہیں،صدارتی الیکشن میں یہ ان کی تیسری کامیابی، جب الیکشن کا معاملہ ہو تو صدر اردوان اپنے حریفوں سے ایک قدم ۤگے سوچتے ہیں، جس کی مثال ان کی رات کو صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد کا خطاب ہے۔

صدر اردوان نے فتح کے بعد خطاب کے لیے استنبول کو چنا جہاں دس ماہ بعد میئر کے الیکشن ہونے والے ہیں اور انہوں نے اس خطاب کو میئر کی انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا، استنبول شہر پر اس وقت اپوزیشن کے میئر کی حکمرانی ہے، صدر اردوان نے کہا کہ استنبول مجھے تم سے پیار ہے، ہم استنبول کو واپس لے کر رہیں گے۔

صدارتی الیکشن میں بھی رجب طیب اردوان نے ووٹرز کی رائے کو تجزیہ کاروں سے بہتر سمجھا اور انہیں غلط ثابت کر دکھایا، تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد اس الیکشن میں اردوان کو ہارتے دیکھ رہی تھی۔

صدر اردوان صرف چار فیصد ووٹوں کی برتری سے جیتے ہیں اور صدارت سنبھالتے ہی وہ اس نکتے پر بھی غور کریں گے۔

اپوزیشن امیدوار قلیچ در اولو نے اچھے انسان کے امیج کے ساتھ صدارتی معرکے میں اترنے کو ترجیح دی، رن ۤف مرحلہ آیا تو ترک بہار اور پناہ گزینوں کو وعدہ بھی کیا،۔ قلیچ در اولود نے انقرہ میں ایک ہزار کمروں والے صدارتی محل کو الیکشن کامیابی کے بعد عوام کے استعمال میں لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔

صدر اردوان کا اپنے ووٹروں کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے، بیس سال پرانا رشتہ، ان میں سے زیادہ قدامت پسند مذہبی طبقے کے لوگ ہیں، حالات جیسے بھی ہوں وہ اردوان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، ترکی میں حالیہ مہنگائی کی خوفناک لہر کے باوجود اردوان کے ووٹرز نے انہیں مزید پانچ سال دلوائے ہیں۔

صدر اردوان کو ان کے ووٹر عثمانی دور کے مضبوط سلطان کی طرح دیکھتے ہیں، ایسا سلطان جس نے جھکنا نہیں سیکھا اور اس امیج کو یورپی میڈیا ایک ڈکٹیٹر کا روپ دے کر پیش کرتا ہے۔

صدر اردوان استنبول میں اعلان فتح کے بعد انقرہ صدارتی محل پہنچے اور ووٹرز سے خطاب میں کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے لیکن یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں۔

اب جمعرات کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے گا، پارلیمنٹ میں بھی صدر اردوان کو600 رکنی پارلیمنٹ میں 318 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہے، صدر اردوان جمعہ کو نئی مدت صدارت کا حلف اٹھائیں گے اور کابینہ نامزد کریں گے۔

صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور صدر اردوان مزید نئے اتحادی تلاش کر سکتے ہیں۔اپوزیشن میں نظریاتی تقسیم کی وجہ سے صدر اردوان کے اگلے پانچ سال سکون سے گزر سکتے ہیں اور اپوزیشن اتحاد بکھرنے کی صورت میں صدر اردوان کی پارٹی بڑے شہروں کی میئرشپ بھی واپس لے سکتی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version