Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

طالبان اور موت کے خوف سے امریکا منتقل ہونے والا افغان شہری واشنگٹن میں قتل

Published

on

Former US military interpreter Nasrat Ahmad Yar, right, sits with his friend Rahim Amini in Virginia [Courtesy of Rahim Amini]

امریکی فوجی انخلا کے دوران ہزاروں افغان شہری طالبان کے ڈر سے بھاگ کر امریکا پہنچے جہاں ان کے خیال میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں، ان ہزاروں افغانوں میں ایک نصرت احمد یار بھی تھا، نصرت احمد یار امریکی فوج کے ساتھ کام کرتا رہا تھا اس لیے اسے خصوصی ویزا ملا تھا۔

اکتیس سالہ نصرت احمد یار امریکا پہنچا تو نئی زندگی کی شروعات کی، اس کے ساتھ بیوی اور 4 بچے نھی امریکا آئے تھے، بچوں کی عمریں بالترتیب 11، 13، 15 اور 18 سال ہیں، نصرت کا خیال تھا کہ وہ سب امریکا میں محفوظ ہیں، پیسہ بنا سکتے ہیں اور اس کے بچے تعلیم مکمل کرکے کیریئر بنا سکتے ہیں۔

تین جولائی کی رات نصرت احمد یار واشنگٹن کے جنوب مشرقی علاقے میں اپنی کار میں مردہ پایا گیا، اسے گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ یہ کار وہ آن لائن ٹیکسی سروس لفٹ کے لیے چلاتا تھا، نصرت احمد یار کی موت پر اس کے خاندان کے علاوہ اس کا دوست رحیم امینی بھی بھی غمزدہ ہےاور اس کا کہنا ہے کہ وہ میرا سگا بھائی نہیں تھا لیکن اس سے بھی بڑھ کر تھا،ہم صرف اس وقت جدا ہوتے تھے جب وہ سو رہا ہوتا تھا، ہم کام پر بھی ساتھ ہوتے تھے، اکٹھے ہنستے تھے اور اکٹھے کھاتے تھے۔

دونوں کی ملاقات بگرام ایئرپورٹ ہوئی تھی جہاں نصرت احمد یار نے دس سال امریکی فوج کے لیے مترجم کا کام کیا، رحیم امینی 2021 میں کابل پر طالبان قبضے کے موقع پر افغانستان سے بھاگ گیا تھا اور نصرت احمد یار کو افغانستان میں رکنا پڑا تھا کیونکہ وہ رحیم امینی کے خاندان کی دیکھ بھال کر رہا تھا جو افغان شہر مزار شریف

Nasrat Ahmad Yar worked as an interpreter with the US military in Afghanistan

نصرت احمد یار کی بگرام ایئرپورٹ پر مترجم کی حیثیت سے ملازمت کے دور کی تصویر

میں پھنس گیا تھا۔

جب مزار شریف پر بھی طالبان کا قبضہ ہوگیا تو نصرت احمد یار بھاگ کر عرب امارات پہنچ گیا اور وہاں سے امریکا پہنچا، وہاں پہنچ کر نصرت احمد یار نے کہا میں بہت خوش ہوں امریکا پہنچ گیا اب میرے بچے محفظ ہوں گے اور تعلیم حاصل کریں گے۔

نصرت احمد یار کی موت کے بعد اس کے خاندان کے لیے اس کے دوستوں اور افغان کمیونٹی نے فنڈ ریزنگ مہم شروع کی ہے۔یہ مہم کراؤڈ فنڈنگ سائٹ گو گنڈ می اور فیس بک پر چلائی جا رہی ہے۔

واشنگٹن میں افغان کمیونٹی لیڈر نراللہ احمد زئی نے کہا کہ یہ نصرت احمد یار اور افغان کمیونٹڑی کے لیے مشکل وقت ہے، یہ صدمہ کسی نہ کسی حوالے سے ہر ایک کو متاثر کرے گا، احمد یار کی کہانی ہزاروں افغان شہریوں کی کہانیوں جیسی ہے جو بھاگ کر امریکا پہنچے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق 97 ہزار افغان شہری ستمبر 2001 سے اب تک امریکا میں سیٹل ہوئے ہیں۔

نوراللہ احمد زئی نے کہا کہ آپ کے حالات جو بھی ہوں بل تو ادا کرنے ہیں اس لیے لوگ آن لائن ٹیکسی سروس چلانے کا کام شروع کر دیتے ہیں جو جلد آمدن کا ایک ذریعہ ہے لیکن یہ ایک ایسا کام میں جس میں کیریئر بنانے اور پروفیشنل ملازمت تلاش کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔

امریکا میں 2017 سے 2022 کے دوران رائیڈ شیئرنگ سروس کا کام کرنے والے کم از کم 50 افراد قتل ہوئے۔ امریکا میں گن وائلنسس تمام ترقی یافتہ ملجوں کی نسبت زیادہ ہے، 2021 میں امریکا میں گن وائلنس کے نتیجے میں 48 ہزار 830 زخمیوں نے ہسپتالوں میں پہنچ کر دم توڑا۔ 2023 میں اب تک 10 ہزار افراد گن وائلنس سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

احمد یار امریکا پہنچنے کے بعد پہلے پہل جنوبی فلاڈلفیا، پنسلوینیا میں سیٹل ہوا لیکن پھر اسے مسلح افراد کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رحیم امینی نے اسے ورجینیا میں سیٹل ہونے پر قائل کیا، جہاں امینی کے خیال میں وہ محفوظ رہ سکتا تھا۔

احمد یار گھنٹوں ڈرائیونگ کر کے امریکا میں اپنے خاندان کے علاوہ افغانستان میں بہن بھائیوں کی مدد بھی کر رہا تھا۔ وہ 12 گھنٹے کی بجائے 20 گھنٹے کام کرتا تھا، اضافی 8 گھنٹوں میں وہ افغانستان میں موجود خاندان کے لیے 100 سے 150 ڈالر کمانے کے چکر میں ہوتا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی پولیس نے احمد یار کے قتل کے بعد اس علاقے سے فرار ہوتے چار ملزموں کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی ہے، پولیس نے قاتلوں کی نشانسہی کے لیے 25 ہزار ڈالر انعام بھی رکھا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین