کالم

ایک اور اکتوبر، ایک اور واپسی، دیکھیں کیا ہو؟

Published

on

سانحہ کارساز کی برسی آئی تو بہت کچھ یادوں کے دریچے میں در آیا۔ اکتوبر 2007 اور اکتوبر 2023 ۔ درمیانی فاصلہ 16 سال ۔ کردار مختلف، حالات مختلف ۔ کئی زمینی حقائق بھی اگرچہ مختلف، لیکن مجھے ان دونوں اکتوبر کے مہینوں میں کئی سیاسی اور تاریخی حوالوں سے مماثلت نظر آرہی ہے۔

18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو اپنی تقریبا 9 سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس لوٹیں تو اس سے قبل انہوں نے پاکستان کے فوجی سربراہ مملکت جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کئی مہینوں پر محیط طویل مذاکرات کے نتیجے میں ایک ڈیل کی۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار کے تقریبا 7 سال مکمل کرنے کے بعد کمزور پڑ رہے تھے۔

نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے افغانستان آپریشن میں امریکہ کو معاونت فراہم کرکے اپنی کرسی کو مضبوط کئے رکھا لیکن افغانستان میں مقاصد پورے کرنے کے بعد اسے جنرل مشرف کی مزید ضرورت نہ تھی سو امریکا نے انہیں لفٹ کرانا بند کردی۔

پرویز مشرف کو اپنے سات سالہ اقتدار کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت تھی لیکن اس کے لئے وہ قاف لیگ کو ایک کمزور سہارا سمجھنے لگے تھے۔ اقتدار کا نیا دور وہ کسی بڑی مستند پارٹی کے ساتھ مل کر شروع کرنا چاہتے تھے۔ نوازشریف سے دیرینہ مخاصمت کی وجہ سے گفتگوممکن نہ تھی سو پیپلزپارٹی سے بات کرنا ان کی مجبوری بن گیا۔

بینظیر بھٹو نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انہیں وردی کے بغیر سویلین صدر منتخب کروانے کی مشروط یقین دہانی کروادی۔ جبکہ اس کے بدلے میں طے پایا کہ بینظیر بھٹو کے تیسری بار وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی۔ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے کیسز کو ختم کرنے کے کا وعدہ ہوا۔ جنرل مشرف اس ڈیل کے ذریعے صدر بننے کے لئے اتنی جلدی میں تھے کہ اپنی اتحادی جماعت قاف لیگ سے بھی بالا بالا بطور صدر نیشنل ری کانسیلیشن آرڈیننس (این آر او) جاری کردیا۔ جس کے ذریعے بینظیر بھٹو سمیت سینکڑوں افراد تمام کیسز ختم کردئیے گئے۔

لیکن مشرف، بینظیر بھٹو سے ڈبل گیم کررہے تھے۔  درحقیقت جنرل مشرف پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنی نئی سیاسی اننگ شروع تو کرنا چاہتے تھے لیکن مائنس بینظیر۔ مشرف نے وردی اتارنے کی کمٹمنٹ کے باوجود انہیں اسمبلیوں سے ایک بار پھر وردی میں ہی نئی پانچ سالہ مدت کا ووٹ لے لیا۔ یہی وجہ تھی کہ جونہی مشرف اسمبلیوں سے نئی ٹرم کے لئے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو یہ پیغام بھیجنے شروع کردئیے کہ وہ واپس نہ آئیں۔ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔

اسی دوران بینظیر بھٹو کو بیرون ملک قتل کی دھمکیوں کے ساتھ خون آلودہ خط بھی موصول ہوئے جو مبینہ طور پر اس وقت کے طالبان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ جو بینظیر بھٹو نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بھی دکھایا۔ مشرف نے وعدے کے مطابق وردی تاحال بھی نہ اتاری تھی جبکہ بینظیر بھٹو پر ان کا اصل پلان بھی کھل چکا تھا۔ بینظیر بھٹو نے قتل کی دھمکیوں اور جنرل مشرف کے بظاہر مخلصانہ مشوروں کو مسترد کردیا اور 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کا اعلان کردیا۔

بینظیر بھٹو کی 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی اور کراچی میں استقبال کو مجھے ذاتی طور پر دیکھنے اور رپورٹ کرنے کا موقع ملا۔ کراچی ایئرپورٹ کے باہر سٹار گیٹ پر ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ان کے اس استقبال کا 1986 کے استقبال سے موازنہ کیا جارہا تھا جسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑا عوامی اجتماع یا ریلی قرار دیا جاتا ہے۔

عوام کے ایک جم غفیر نے بینظیر بھٹو کو ویلکم کہا لیکن شام ڈھلتے ہی ان کی استقبالی ریلی پر دہشتگردوں کا پہلا حملہ ہوا۔ یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکوں میں سینکڑوں جیالے جاں بحق ہوگئے تاہم بینظیر بھٹو اپنے بم پروف کنٹینر کی وجہ سے محفوظ رہیں۔ یہ اس قدر خوفناک حملہ تھا کہ اس میں سے بینظیر بھٹو کے بچ جانے کو معجزہ قرار دیا گیا۔ لیکن بینظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے والوں نے ان کا پیچھا جاری رکھا اور ٹھیک دو ماہ دس دن کے بعد 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ گراؤنڈ کے باہر جلسے کے بعد فائرنگ سے ان کی جان لے لی۔ گویا انہیں جو پیغام دیا گیا تھا وہ سنجیدہ تھا اور درست ثابت ہوا۔

بینظیر بھٹو کے قتل میں پرویز مشرف کے خلاف کمزور سے کمزور ایف آئی آر بھی درج کی جائے تو وہ اس حوالے سے ضرور ذمہ دار قرار پاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس بینظیر بھٹو کی سلامتی کے حوالے سے اس قدر ٹھوس انٹیلیجنس اطلاعات موجود تھیں تو انہوں نے بطور صدر ایسے عناصر کو بینظیر بھٹو کے قتل سے روکنے کی کوشش یا انتظامات کیوں نہ کئے ؟

بات دونوں اکتوبر کے مہینوں میں مماثلت سے شروع ہوئی تھی تو یہ اس لئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نوازشریف نے بھی 16 سال بعد اکتوبر کے مہینے میں ہی اپنی چارسالہ جلاوطنی کو ختم کرکے وطن واپسی کا اعلان کیا ہے۔ اور وہ پروگرام کے مطابق 21 اکتوبر کو لاہور پہنچ رہے ہیں۔ نوازشریف جن حالات میں اپنے علاج کی خاطر جیل سے باہر گئے اور پھر چار ہفتوں کی بجائے چار سال باہر رہنے پر مجبور ہوئے وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ 2019 میں جب وہ بیرون ملک گئے تب ان کے دونوں سیاسی مخالفین عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، اینٹی نواز ایجنڈے پر ایک ہی صفحے پر تھے۔ لیکن جب جنرل باجوہ کے عمران خان سے اختلاف پیدا ہوئے تو انہیں دوبارہ نون لیگ کی اسی طرح ضرورت پیش آئی جیسے 2006۔7 میں پرویز مشرف کو پیپلزپارٹی سے واسطہ پڑا تھا۔

جنرل باجوہ نے نون لیگ سے نوازشریف کو مائنس کرکے ان کے بھائی کے لئے وزارت عظمی کی راہ ہموار کی۔ اور ان کے ذریعے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک اور ایکسٹینشن لینے کی بھرپور کوشش کی تھی جسے نوازشریف نے کامیاب نہ ہونے دیا۔

یہ خبریں اب ڈھکی چھپی نہیں رہیں کہ جنرل باجوہ کی رخصتی کے بعد بھی نوازشریف کو وطن واپسی سے روکنے کے لئے آخری لمحے تک کوششیں ہوئی ہیں۔ یہ مشورے خود ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں کے ذریعے دئیے گئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی تو کھل کر کہتے ہیں کہ نوازشریف کو اس طرح عوامی استقبال کا اہتمام کرکے واپس نہیں آنا چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ 21 اکتوبر سے محض تین روز قبل بھی نوازشریف کی واپسی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں۔

بینظیر بھٹو کے قتل کے سانحہ کے پاکستان کی سیاست پر بڑے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ ملک میں انتہا پسند رویوں کو فروغ ملا۔ بینظیر بھٹو جیسی قدآور اور عوامی قیادت سے محرومی کے بعد پیپلزپارٹی کے مخالفین نے اسے ایک صوبے تک محدود کرکے بہت کمزور کردیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف زیادہ بہتر مینجمنٹ کے ساتھ سیاست کرتے ہیں۔ اور انہوں نے طاقتور حلقوں میں اپنی سیاست اور شخصیت سے خائف فریقین کو اچھی طرح مطمئن کرنے کے بعد ہی واپسی کا پلان بنایا ہوگا۔ نوازشریف کی وطن واپسی ایک بڑی سیاسی پیشرفت ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان ہیں۔ ہمیں توقع رکھنا چاہیئے کہ وہ واپس آکر ملک میں سیاسی تناؤ کم کریں گے۔ کیونکہ پاکستان کو اس وقت جن داخلی اور علاقائی چیلنجز کا سامنا ہے اس کے سیاسی اور معاشی استحکام انتہائی ضروری ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version