کالم
کیا سیاستدان الیکشن سے بھاگ رہے ہیں؟
وطن عزیز کو عجب غیر یقینی کی دھند نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ دن بدن نزدیک آتی جارہی ہے لیکن لگتا ہے کہ جیسے انتخابات دور ہوتے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف، چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سمیت ریاست پاکستان کے تمام ذمہ داران مسلسل یقین دہانیاں کروا رہے ہییں کہ انتخابات اپنی مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔ لیکن الیکشن کا ماحول بن ہی نہیں رہا۔
ہمارے ہاں عام طور پر سیاسی جماعتیں ملک میں کسی بھی غیر آئینی یا غیر جمہوری نظام کے خلاف بظاہر آواز اٹھاتی ہیں لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خود سیاسی جماعتیں ہی انتخابات کے لئے تیار نظر نہیں آرہیں۔
ہم نے پہلے بھی انہیں کالموں میں بڑی سیاسی جماعتوں کی گذشتہ دوسال کے دوران سیاست کا جائزہ لیا تھا جس میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر مردم شماری اور پھر اسمبلیوں کو مقررہ مدت سے ایک روز قبل توڑنے کے اقدامات کا ذکر کیا تھا۔ جس میں تحریک انصاف سے لے کر مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، ایم کیوایم سمیت ہر پارٹی انتخابی عمل میں تاخیر کی وجوہات میں حصہ ڈالتی ہوئی نظر آتی ہے۔
لیکن اب بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر نکل آئی ہے جب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی کوشش کے بعد کھل کر انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں فائرنگ ایک ایسے مقام پر ہوئی جہاں سے مولانا فضل الرحمان کا قافلہ کافی وقت پہلے گذر چکا تھا اور بقول ترجمان جے یو آئی جب فائرنگ ہوئی اس وقت مولانا اپنے گھر میں بیٹھے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مولانا پر حملہ ہونا سنگین واقعہ نہیں۔ بلاشبہ ایسے واقعات امن و امان کے حوالے سے انتہائی سنگین صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں خود اسے ایک جواز بنا کر پیش کریں گی تو پھر کسی اور کو انتخابات میں تاخیر کا دوش کیونکر دیں گی۔
اگر ہم مسلم لیگ نون کی بات کریں تو تحریک انصاف کی سیاسی بربادی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہونے کے باعث آئندہ حکمران پارٹی کے طور پر اسے فیورٹ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جبکہ مسلم لیگ نون پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم کی مشق سے ہی باہر نہیں نکل پارہی۔ انتخابات میں محض چار ہفتے رہ گئے ہیں لیکن نون لیگ کی طرف سے انتخابی مہم ہی شروع نہیں کی گئی۔ الیکشن کے لئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کئے جارہے اور کہا گیا ہے کہ پارٹی ٹکٹ اس روز دئیے جائیں گے جب الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کی تاریخ آئے گی۔
یہی حال پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کا ہے۔ جو امیدوار الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل سے پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟
پارٹی ٹکٹ جاری نہ کرنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ نون لیگ سمیت تمام سیاسی پارٹیاں غالبا ابھی تک اس حوالے سے پراعتماد نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ 8 فروری کو الیکشن کروا دے گی۔ نون لیگ سمجھتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ الیکشن بھی نہ ہوں اور پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر پارٹی میں اندرونی لڑائیاں اسے مزید کمزور دیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں پوٹینشل امیدواروں کے نہ ہونے کے بحران سے دوچار ہے اس لئے اس نے مسلم لیگ نون کی ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ کئی مقامات پر نون لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار بیک وقت پیپلزپارٹی سے بھی رابطے میں ہے۔ پیپلزپارٹی اس انتظار میں ہے کہ نون لیگ ٹکٹوں کا فیصلہ کرے تو اس کے ٹکٹوں سے محروم رہ جانے والے ناراض ارکان کو اپنا امیدوار بنالے۔
اسی طرح پیپلزپارٹی کئی جگہوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں پر نظر لگائے بیٹھی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ سیدھا نہیں ہوتا تو بھی پیپلزپارٹی اس سے فائدہ اٹھائے گی۔ گویا یہ معاملات بھی الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے سے جڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں انتخابی ماحول نہیں بن پارہا۔
نون لیگ کا ایک اور مسئلہ عوامی سطح پر ہونے والے سرویز ہیں جن میں تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بدستور سبقت میں نظر آرہی ہے۔ یہ سروے رپورٹس مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ یہ بات واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے کہ موجودہ حالات میں اگر تحریک انصاف اپنی اصل شکل میں میدان میں رہتی ہے تو کامیابی ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ اس لئے الیکشن کا ہونا انہیں اپنے لئے زیادہ سود مند نظر نہیں آتا۔
اب اگر مولانا فضل الرحمان کی طرف سے الیکشن ملتوی کرنے کے تازہ ترین مطالبے کا جائزہ لیں تو صورتحال پوری طرح سمجھ آجاتی ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ امن و امان کی انتہائی خراب صورتحال میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہوگا جس میں دھاندلی آسان ہوجاتی ہے۔ اب معلوم نہیں مولانا کو دھاندلی کا خدشہ خیبرپختونخوا میں جارح مزاج پی ٹی آئی ورکرز کی طرف سے ہے یا ان کا مخاطب کوئی اور ہے۔
مولانا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اگر فروری میں انتخابات ہوبھی جائیں تو نئی حکومت جون میں بجٹ پیش کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ مولانا کے ساتھ بصد احترام سے عرض ہے کہ سیاسی قیادت کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔
ہم تو یہ سمجھتے ہیں انتخابات بہرحال مقررہ تاریخ پر ہی ہونے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے فوبیا کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔ اگر حکمرانی کے خواب آنکھوں میں سجانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی اپوزیشن کا کردار بھی ذہن میں رکھتے ہوئے انتخابی میدان میں اتریں تو ملک کی قسمت سنورنے کے دور کا آغاز اسی ایک لمحے سے ہوسکتا ہے۔ اگر سیاسی قائدین شکست کے خوف سے انتخابات کے التوا کے خود ہی جواز فراہم کرتے رہیں تو پھر وہ دن بھی دور نہیں جب ہم بحالی جمہوریت کی تحریک چلاتے ہوئے نوازشریف، عمران خان، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو ایک ہی ٹرک پر پہلو بہ پہلو دیکھ رہے ہوں گے۔