ٹاپ سٹوریز

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن،لارجر بینچ میں چیف جسٹس کی خوشدامن کا تذکرہ، بینچ سے الگ ہونے کی درخواست

Published

on

آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا کی۔

سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور جوڈیشل کمیشن میں تحقیقات کے لیے بھجوائی گئی آڈیوز کی فہرست اور ٹی او آرز کا ذکر کیا، ان ٹی او آرز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیا کی خوشدامن کی مبینہ آڈیو ٹیپ بھی شامل ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کی خوشدامن کا ذکر کئے بغیر اس جانب اشارہ کیا اور کہا کہ آپ کی توجہ جوڈیشل کمیشن کے نوٹیفکیشن 6 کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، میری ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ آپ اس بینچ میں نہ بیٹھیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اعتراض کرنا آپکا حق ہے۔ کسی جج کو کمیشن میں بیٹھنے کیلئے چیف جسٹس کی اجازت لازمی ہے،حکومت نے اپنی مرضی سے ججز شامل کر کے کمیشن بنا دیا،چیف جسٹس آئینی عہدہ ہے،عدلیہ سے ایگزیکٹیو الگ رہے،عدلیہ کے اختیارات میں حکومت مداخلت نہ کرے،حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے،بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں،کمیشن سے متعلق سپریم کورٹ رولز اور کئی فیصلے موجود ہیں،حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کا احترام کرے،آرٹیکل 75 کو نظرانداز نہ کیا جائے،حکومت سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم پیدا کر رہی ہے،اس طرح کے حکومتی اقدامات ججز کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔

اٹارنبی جنرل نے کہا کہ حکومت نے ججز میں کوئی تقسیم نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو راستہ بتاتے،سپریم کورٹ سے کسی قانون بنانے میں مشورہ نہیں کیا گیا،9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ عدلیہ پر تنقید بند ہو گئی ہے۔آپکا احترام کرتے ہیں اور حکومت کا بھی کیونکہ حکومت پاکستان ہے،حکومت مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو کرے،اگر قانونی معاملات چلانے ہیں تو ہم تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکو پنجاب انتخابات میں سنیں گے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version