کالم

بکتربند قانون!

Published

on

سنا ہے، قانون کو آج کل اپنے راستے کی تلاش ہے، کبھی وہ بکتر بند گاڑیوں پرسوار ہے تو کبھی اسے نوٹیفیکیشن اورکبھی ڈی نوٹیفیکیشن کا راستہ سوجھ رہاہے۔ کبھی قانون دیواریں پھلانگ رہا ہے تو کبھی دروازے توڑ رہا ہے۔ کیا زمانہ آ گیا ہے, پولیس سے بچائو کیلئے رینجرز نے چوہدری شجاعت کے گھر کی حفاظت سنبھال لی ہے، اور جو "شجاعت” نہیں ہے وہ کدھر جائے؟ کچھ اس کی بھی خبر لیجئے۔

عوام کو کون سا قانون چاہیے،بکتر بند قانون؟ یا 1861ء کا پولیس ایکٹ؟ کون سا انصاف چاہیے، ڈی نوٹیفیکیشن جسٹس؟ یا پھر آئین کی شقوں 8 تا 19 میں مندرج "جسٹس”؟ ہندوستان جیسا "بلڈوزر جسٹس” چاہیے یا پھر ہمیں اپنے جیسا عدالتی جسٹس؟

ہمیں جناب جسٹس (ر) انوار الحق چاہئیں یا جسٹس یعقوب علی خان؟ ہماری عدالتوں کو جناب مولوی مشتاق حسین جیسے ججوں کی ضرورت ہے یا جناب جسٹس (ر) کے ایم صمدانی کی؟ مجھے یاد ہے ذرا ذرا، جب جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم گرفتار ہوئے تھے تو جسٹس (ر) کے ایم صمدانی نے ضمانت پر چھوڑ دیا تھا۔ ضمیر کی اس لڑائی کے میدان میں جناب کے ایم صمدانی اکیلے ہی چلے تھے۔ جنرل (ر) ضیاء الحق نے ان کا "علاج” کیا۔ جلد ہی ایڈیشنل سیکرٹری قانون بنا دئے گئے۔ ذرا سوچئے، ایک ایسے ملک میں جہاں آئین "طاق نسیاں” پر پڑا ہو، ملک میں نافذ "مارشل” کا لاء ہو، وہاں سیکرٹری قانون کی کیا ضرورت! کیا کریں، نظریہ ضرورت میں ہر شے کی گنجائش ہوتی ہے۔ جنرل (ر) ضیاء الحق کو عدالتوں میں جناب جسٹس صمدانی کی نہیں، بلکہ جناب انوار الحق جیسے ججز درکار تھے، جو 20 ویں صدی میں بڑھتی ہوئی جدیدیت، جمہوری سوچ پر، نظریہ ضرورت کو مسلط کر سکیں۔ منتخب اداروں پر "میڈ اِن چائنا” تالے لگا سکیں۔ اپریل 1980ء میں جناب کےایم صمدانی، وفاقی سیکرٹری قانون تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک تقریب میں بیوروکریٹس کو بے نقط سنائیں۔ عوام پر راج کرنے والے،مگر مچھ جیسے افسران پہلو بدلتے رہے، لیکن چپ تھے،ایک لفظ نہ بول سکے۔ یہ افسر اپنے عہدوں کو "پیارے” ہو چکے تھے۔ جناب جسٹس صمدانی اس آلودہ تالاب میں صاحبِ ضمیر افسر تھے۔ جنرل (ر) ضیاء الحق کی ہر بات کی نفی کی۔ جان نکل گئی بیوروکریٹس کی۔ جناب جسٹس صمدانی پر معافی مانگنے کیلئے دبائو رہا، وہ نہ مانے۔ ایک سال کے اندر اندر عدالتوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم ملا، تب ریٹائرمنٹ لے کر جنرل ضیاء الحق کی جان چھوڑدی۔

سپریم کورٹ میں جنرل (ر) ضیاء الحق کا واسطہ، جناب جسٹس محمد یعقوب علی سے پڑا۔ 1976ء میں (سابق) وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو مرحوم نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے جناب جسٹس محمد یعقوب کو ریٹائرمنٹ کے خاتمے کے باوجود زیادہ عرصے تک چیف جسٹس رہنے کی اجازت دے دی تھی، وہ یکم نومبر 1975 کو چیف جسٹس آف پاکستان بنے تھے۔ جنرل ضیاء الحق ایک سدُھی ہوئی، گائے جیسی عدالت کے خواہاں تھے، جناب جسٹس ایک آنکھ نہ بھائے۔ جناب یعقوب، مارشل لاء (لاء لیس لاء) کے دائرے کو مسترد کر چکے تھے۔ سبھی کو یقینِ کامل تھا کہ جمہوریت پسند جج کی سربراہی میں سپریم کورٹ غیر قانونی اقدامات کو کالعدم قرار دے دے گی، لہٰذا چیف جسٹس (ر) محمد یعقوب کی معیاد میں توسیع کا نوٹیفیکیشن منسوخ کر دیا گیا، جس سے جناب جسٹس (ر) انوارالحق کے عدالتی چیف بننے کا راستہ ہموار ہو گیا۔

آج پھر ہم ایک الجھن میں ہیں، کون کیا کر رہاہے، کوئی جانتا ہے نہ بتا رہا ہے۔ پرویز الٰہی کے گھر کے مین گیٹ پر بکتربند گاڑی کیوں چڑھ دوڑی، حکم کس کا تھا؟ پتہ نہیں۔ عمران خان جب بطور وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ میں نے فلاں خبر ٹی وی پر سنی۔ تو ان سے کتنے اکابرین استعفوں کی مانگیں کیا کرتے تھے؟ ڈھیرسارے بیانات اخباری صفحات کو سیاہ اور چینل کا وقت ضائع کرتے تھے۔ اب وہی اکابرینِ سیاست حیران ہیں، انگشت بدنداں ہیں، انہیں بھی بہت کچھ ٹی وی سے پتہ چل رہا ہے۔

کل، ایک ٹی وی پرگرام میں وزیرِ دفاع جناب خواجہ آصف نے کان کھڑے کرنے والے بیانات دئیے۔ کس کے کہنے پر عمران دور میں جسٹس قاضی فائز کیس پر کارروائی شروع کی گئی۔ انہیں پی ٹی آئی۔ پی ڈی ایم مذاکرات بھی بے معنی اور بے مقصد نظر آئے۔ ابھی، جس وقت میں رقم طراز ہوں، جناب فاروق ایچ نائیک آئین کے آرٹیکل 184 کے دائرہ کار اور سپریم کورٹ کی جانب سے "سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل، 2023ء” کے نفاذ سے قبل فیصلے پر معترض ہیں۔ ان کا فرمان ہے: اول، سپریم کورٹ نفاذ سے پہلے عمل درآمد کو روک نہیں سکتی۔ دوئم، یہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کی زد میں نہیں آتا۔ سوم، عملدرآمد روکنے سے اس آرٹیکل کے تحت ہونے والے فیصلوں پر نظر ثآنی کا راستہ بند ہو جائے گا۔ یعنی رائٹ ٹو اپیل بدستور متاثر رہے گا۔

کیا میں عرض کر سکتا ہوں کہ، محترم چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری نے 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ سے ایک دن پہلے، 2 نمبر 2007ء کو ہی متوقع ایمرجنسی کو، پیشگی طور پرغیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ، اگر ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی تو وہ غیر قانونی ہو گی۔ یہ فیصلہ سبھی نے تسلیم کر لیا تھا۔ اس ضمن میں اعتزاز احسن بھی عدالت عظمیٰ میں گئے تھے۔

جو "پیشگی فیصلہ” 2007ء میں حلال تھا اب پیشگی فیصلہ ماورائے آئین کیسے ہو گیا؟

میں یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ آئین کی منشاء کیا ہے، آئین 90 روز میں انتخابات چاہتا ہے یا آئین پہلے ملک بھر میں مردم شماری کے حق میں ہے؟، آئین کی منشا یہ ہے کہ حکومت انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرے یا غربت کے ماحول میں مقررہ معیاد میں انتخابات نہ کرانے سے بھی آئین مطمئن ہو جائے گا؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version