ٹاپ سٹوریز

پابندی یا مائنس عمران، پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟

Published

on

یہ تو معلوم تھا کہ عمران خان کو جب بھی گرفتار کیا جائے گا تو ان کی پارٹی کی طرف سے اس پر ردعمل آئے گا۔ مظاہرے ہوں گے، لبرٹی چوک، لالک چوک، کلفٹن، تین تلوار یا پھر پی ٹی آئی دھرنے کی وجہ سے شہرت پانے والا ڈی چوک بلاک کردیا جائیگا، یا پھر وسیع تر تجربے کی بنیاد پر ان کے کارکن اسلام آباد کی طرف مارچ یا دھرنے کے لئے نکل پڑیں گے، ہڑتال کی کال دے دی جائے گی، لیکن ردعمل کے نام پر جو ہوگیا وہ کسی نے سوچا نہ تھا۔

راولپنڈی اور لاہورمیں جس طرح جی ایچ کیواور کورکمانڈر ہاؤس پر ہلہ بولا گیا، خاص طور پر لاہورمیں تومشتعل ہجوم نے کور کمانڈر ہاوس کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ پاکستان تو کیا کسی بھی ملک میں ایسے مقامات ملک کی سلامتی کی علامت شمارہوتے ہیں، اس لئے انہیں نوگو ایریا یا ریڈ لائن جیسی اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد جب اس اس وقت کی اپوزیشن نے اسٹبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کی پالیسی اختیار کی تو پی ڈی ایم کے ایک سربراہی اجلاس میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اورجے یو آئی کی طرف سے تجویز آئی کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کو پنڈی کی طرف موڑ دیا جائے اور جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کیا جائے،تب پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے اس آئیڈیا کو پذیرائی نہ دی اور معاملہ وہیں ٹھپ کردیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے کارکن تو ایسے بپھرے کہ انہوں نے یہ تمام ریڈ لائنز نہ صرف عبور کیں بلکہ انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

پابندیوں کا سلسلہ پنڈی سازش کیس سے شروع ہوا

منگل کے روز پرتشدد مظاہروں کے بعد اب یہ بات سیاسی حلقوں میں زور و شور سے زیربحث ہے کہ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگنے جارہی ہے۔ کیوں کہ اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف سرگرمیوں کے نتیجے میں کئی سیاسی جماعتیں اور شخصیات  پابندیوں کا شکار ہوئیں۔

اگر اس تاریخ کا مختصر جائزہ لیں سیاسی جماعتوں اورشخصیات پر پابندیوں کا سلسلہ پاکستان کے بننے کےچار سال بعد ہی 1951ء میں پنڈی سازش کیس سے شروع ہوا۔ جب فوج کے بعض افسروں اور سویلینز پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا تختہ الٹنے کی سازش کا الزام لگا،تو ایک خصوصی ٹربیونل تشکیل دے کر قید و بند کی سزائیں سنائی گئیں۔ میجر جنرل اکبرخان، فیض احمد فیض، بریگیڈئیر ایم اے لطیف اس کیس کے بڑے کردار تھے۔ اسی کیس میں کیمونسٹ پارٹی کو بھی لپیٹ دیا گیا اورپاکستان میں کمیونسٹ پارٹی سیاست پر پابندی عائد کردی گئی۔

جماعت اسلامی پر پابندی اور بحالی

اسی طرح 1963ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو مشرقی پاکستان کی ہائیکورٹ نے اس پابندی کو ختم کردیا،مغربی پاکستان کی ہائیکورٹ نے برقرار رکھا،بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پابندی کو ختم کردیا۔

نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کی عدالتی توثیق اور ضیا دور میں نام تبدیلی

نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) دو بارپابندی کا شکار ہوئی۔ آخری بار 1975ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے رہنما حیات محمد شیرپاؤ کی پشاوربم دھماکے میں ہلاکت کا الزام نیپ پرعائد کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کی، سپریم کورٹ نے بھی اس پابندی کی توثیق کی۔ نیپ بنیادی طورپرافغانستان کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں تھی اور اسے سکیورٹی رسک سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد نیپ کو نام بدل کر دوبارہ سیاسی طور پر متحرک ہونے کا موقع فراہم کیا۔

الطاف حسین کی حالیہ مثال

ایم کیو ایم کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے مشرف دور میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات کے مزے اڑائےلیکن اس کے بعد اسٹبلشمنٹ سے بگڑے تو الطاف حسین شعلہ بیانی پر اترآئے، ایسی ہی ایک تقریر کی آگ الطاف حسین کی سیاست کو ہی بھسم کر گئی۔ اس تقریر میں الطاف حسین نے قومی سلامتی سے متعلق تمام ریڈ لائنز کراس کیں تو ان کی پارٹی پر پابندی عائد نہ کی گئی بلکہ پارٹی ہی ان سے چھین لی گئی۔

الطاف حسین کی تقاریرپرپابندی لگی اورپھرایک ایک کرکے ان کی پارٹی کے تمام رہنماؤں نے ان سے اعلانیہ کنارہ کشی اختیار کرلی۔ آج وہ ایم کیو ایم لندن کے نام سے ایک پارٹی کےسربراہ ہیں جبکہ ان کی اصل پارٹی ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے ملک میں سیاست کررہی ہے جس میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

اکبر بگٹی مار دیئے گئے

ملکی سیاست کا ایک اور بڑا نام سردار اکبربگٹی، سیاسی کیریئر میں طویل عرصہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مثالی تعلقات کے نتیجے میںبلوچستان کے وزیراعلٰیٰ، گورنر، وفاقی وزیرسمیت اہم عہدوں پر فائز رہے لیکن جب بلوچ عسکریت پسندوں کی سرپرستی شروع کی توجنرل مشرف دورمیں کوہلوآپریشن ميں ماردئیے گئے۔

پابندی کی زد میں آنے والی پارٹیوں کی ایک دوسری فہرست بھی ہے، کئی مذہبی،جہادی جماعتوں اورتنظیموں کوریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے کالعدم قرار دیا جاچکا ہے،ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔ کئی عسکریت پسند جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف سوات، مالاکنڈ، جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت ملک بھر میں ایک بڑا فوجی آپریشن گذشتہ پندرہ سال سے چل رہا ہے۔

سیاسی عمل کچھ عرصہ کے لیے موقوف ہونے کے خدشات

پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھیں تو منگل کے روز کے واقعات کے بعد یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا؟ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے حد سے بڑھے جارحانہ طرزسیاست نے پہلے ہی انھیں طاقت کے مراکز سے دور کردیا تھا لیکن اب ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے ان کی جماعت کے خلاف پابندی کے لئے تمام جواز فراہم کردئیے ہیں۔ ان پابندیوں کی کیا شکل ہوسکتی ہے یہ آنےوالے وقت میں اسٹبلشمنٹ کی حکمت عملی سے ہی واضح ہوگا کہ آیا تحریک انصاف کو کلی طور پر سیاست سے بیدخل کیا جاتا ہے یا پھر ایم کیو ایم ماڈل پر مائنس عمران پی ٹی آئی تیار کی جائے گی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب یہیں رکتا نظر نہیں آتا۔ الیکشن کی باتیں تو ثانوی ہوگئیں۔ اب یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عمل کچھ عرصہ کے لئے موقوف ہوسکتا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version