Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

کیا اٹارنی جنرل یقین دہانی کرا سکتے ہیں آئندہ کسی کو نہیں اٹھایا جائے گا، سپریم کورٹ

Published

on

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں شعیب شاہین اور آمنہ مسعود جنجوعہ روسٹرم پر آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کیس میں بہت گہرائی اور تفصیل سے دلائل ہوچکے ہیں۔

شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کردیے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیس آگے بڑھائیں رجسٹرار اعتراضات کے خلاف تحریری آرڈر آج کردیں گے۔

جس کے بعد شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکر نہیں، لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں۔

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کرکام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا۔ ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو وہ پیش ہونے کو تیار ہیں؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ پروٹیکشن فراہم کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کیا ہم کسی کیلٸے کارپٹ بچھائیں گے، اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائیں، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دیں گے؟ آپ اس کو سیاسی اکھاڑا نہ بناٸیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ شیخ رشید نے آپ کو کیا کہا؟ دھرنا اور الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آسکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو اپنے لٸے بات نہیں کرسکتے وہ کسی کیلٸے کیا بات کریں گے۔

دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے مطیع اللہ جان کیس کا بھی حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل آپ مطیع اللہ جان کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس وقت کی حکومت نے ذمہ داری لی تھی؟

شعیب شاہین نے جب کہا کہ اس وقت کی حکومت کی مداخلت سے ہی شاید وہ جلدی واپس آگئے۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ کریڈٹ نہ لیں وہ واقعہ کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حیران ہوں اس کیس میں ایک بھی بندے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، یہ کیس دو منٹ میں حل ہو سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا تو ڈر لیں یا حکومتیں چلا لیں۔ یہ واحد لاپتہ افراد کا کیس تھا جوریکارڈ ہوگیا تھا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ صحافی عمران ریاض کا واقعہ بھی ریکارڈ ہوگیا تھا، عمران ریاض نے کل مجھے کہا عدالت تحفظ دے تو میں آجاؤں گا۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ کو روسٹرم پر بلالیا۔

آمنہ جنجوعہ نے بتایا کہ میرے شوہر 2005 میں جبری گمشدہ ہوئے تھے، اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کی اس وقت کس کی حکومت تھی؟ جس پر آمنہ جنجوعہ نے جواب دیا کہ اس وقت پرویزمشرف کی حکومت تھی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کے شوہر کو کس وجہ سے اٹھایا گیا تھا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کاروباری شوہر کا حکومت یا ریاست سے کیا تعلق تھا؟ ریاست کس وجہ سے آپ کے شوہر کو اٹھائے گی؟ پہلے وجہ سمجھ آئے کہ حکومت نے کیوں آپ کے شوہر کو اٹھایا ہوگا، کیا آپ کے شوہر مجاہدین کے حامی تھے یا کسی تنظیم کے رکن تھے؟

آمنہ مسعود نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میرے شوہر کو 2013 میں مردہ قرار دے دیا تھا، میرے شوہر دوست سے ملنے پشاور کیلئے نکلے لیکن پہنچے نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ غیر ریاستی عناصر بھی ہیں اور ایجنسیاں بھی۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ سال 2007 میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر آئی ایس آئی کی تحویل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن کا سربراہ کون ہے؟

جس پر اٹارنی جرل نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں، وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے 2011 میں ریٹاٸرڈ ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمیشن صرف تنخواہیں ہی لیتا ہے یا کوٸی اور کام بھی کرتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ایک ماہ میں کتنے اجلاس ہوتے ہیں؟ کتنے لوگ بازیاب ہوتے ہیں؟

جس پر رجسٹرار کمیشن نے جواب دیا کہ اس ماہ 46 افراد بازیاب ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج کل لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں یا نہیں ؟ آپ کے پاس کیسز آ رہے ہیں؟ رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ جی کمیشن کے پاس کیسز آ رہے ہیں، کیسز آنے کے بعد کمیشن جے آٸی ٹی بناتی ہے۔

اس موقع پر آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ ہم لوگ لاپتہ کمیشن کے پاس گٸے ، ہم ان سے مطمن نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن صاحب آپ مطمئن ہیں اس کمیشن سے یا نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں بالکل مطمن نہیں ہوں۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں اعتزاز احسن سمیت کوٸی بھی لاپتہ افراد کیلٸے قاٸم کمیشن سے مطمئن نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمیشن کے ارکان کو تنخواہ ملتی ہے؟ جس ہر رجسٹرار کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کو عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ممبران کوعدالت عالیہ کے مطابق پیکج ملتا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کیا کمیشن ممبران کو پنشن نہیں ملتی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ پنشن الگ سے ملتی ہے اور بطور کمیشن تنخواہ الگ۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن 2011 میں بنا تھا اب تک اسے ہی توسیع دی جا رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 136 لاپتہ افراد کے بارے میں یہ کمیشن صرف چھ ماہ کیلٸے بنایا گیا تھا۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا، جنہوں نے بتایا کہ 2010 میں پہلی بار یہ کمیشن جسٹس (ر) کمال منصور کی سربراہی میں بنا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل! کیا آپ حکومت کی طرف کہہ سکتے ہیں کسی کو غیر قانونی نہیں اٹھایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین