ٹاپ سٹوریز
چیف جسٹس کے خلاف توہین عدالت، مس کنڈکٹ کی کارروائی ہو سکتی ہے،عرفان قادر
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے تاریخ کے اعلان اور حکمران اتحاد کے انتخابات کرانے سے معذوری نے بظاہر ایک تناؤ کی صورت حال کو جنم دیا ہے۔
اب یہ سوال گردش کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابات مقرر تاریخ پر ہوجائیں گے؟ اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ اپنے احکامات پر کیسے عمل درآمد کرائے گا؟ کیا وزیر اعظم شہباز شریف نااہل ہو جائیں گے؟
ہر کوئی ان سوالوں کے جواب کی کھوج میں ہے کیونکہ یہ سوال کسی پہیلی سے کم نہیں ہے. اسی ملتے جلتے سوال کے جواب کیلئے ممتاز قانون دان اور سابق اٹارنی پاکستان عرفان قادر سے رابطہ کیا۔
ماہر قانون عرفان قادر کے نزدیک موجودہ صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اپنی غلطی مان لیں. اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ وہ استعفی دے دیں۔
سابق اٹارنی کے بقول غلطی مان کر اس معاملے کو ختم کریں، کسی کو اس بات میں دلچسپی نہیں ہے کہ اُن کو سزا دی جائے۔
عرفان قادر کہتے ہیں کہ "خدا کرے کہ چیف جسٹس پاکستان اپنی غلطی کو مان لیں اور قوم انہیں معاف کر دے گی. دوسری صورت میں ان کیخلاف توہین عدالت اور مس کنڈکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے”
سابق اٹارنی جنرل پاکستان عرفان قادر جو اس وقت پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن پاکستان کے وکیل ہیں اور اُن کا یہ پختہ یقین ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ساتھی ججز کا اعتماد ہو چکے ہیں. ان کی اپنی عدالت ان کیساتھ نہیں ہے، تین ہم خیال ججز ہی ہیں جب بھی ان ججز کا فیصلہ آئے گا تو اس پر ایک سوالیہ نشان ہوگا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ توہین عدالت کی طرح توہین پارلیمان کا بھی کوئی قانون ہے اور اس کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے؟ تو سابق اٹارنی جنرل پاکستان عرفان قادر نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ایسے قانون کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں البتہ اُن کی رائے ہے کہ ان ججز نے چار ججز کی توہین کی ہے۔
جب ماہر قانون سے پوچھا گیا کہ کیا وزیر اعظم شہباز شریف اس معاملے میں نااہل ہوسکتے؟ تو اُن کی رائے ہے کہ وزیر اعظم کو کسی طرح بھی نا اہل نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے بقول ” سپریم کورٹ چاہے بھی تو وزیر اعظم کو توہین عدالت یا اس طرح کی کسی بات پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی”
عرفان قادر یاد کرتے ہیں جس وقت سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا ہوئی تھی تو اٌس وقت وہ اٹارنی جنرل تھے اور یوسف رضا گیلانی نا اہل ہونے پر اپنے عہدے سے الگ نہیں ہوئے بلکہ اُن کے مشورہ پر وزارت عظمیٰ سے استعفی دیا تھا تاکہ عدلیہ کو ایک باعزت راستہ دیا جا سکے. اُن کے بقول یوسف رضا گیلانی کا استعفی آج بھی ریکارڈ میں موجود ہوگا۔