Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

کرپشن کہانی

Published

on

کرپشن کا لفظ ہماری رومرہ زندگی اور سیاست دانوں کے بیانات میں اس کا ذکر معمول کی بات ہے، کرپشن کا ذکرملک میں زبان زد عام کب ہوا؟ اس کا درست اندازہ ممکن نہیں لیکن حالیہ سیاسی تاریخ میں کرپشن کے ابتدائی سکینڈلز میں ایک سکینڈل انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس ( آئی پی پیز) کا ہے۔
مہنگے بجلی منصوبوں کا آغاز کر کے کرپشن کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا، یہ سلسلہ 1994ء میں شروع ہوا جب کمیشن کی خاطر سستی پن بجلی کی پیداوار بڑھانے کی بجائے آئی پی پیز کے ذریعے فرنس آئل سے چلنے والے پراجیکٹس لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔، آئل مافیا پاکستان کی سرزمین پر پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوا تو بجلی کی پیداواری لاگت بھی فی یونٹ پیسوں سے نکل کرروپوں تک جا پہنچی ،شورشرابا روکنے کیلئے بجلی کے نرخ سبسڈی دے کر کنٹرول کئے جاتے رہے،ان منصوبوں میں بھاری کمیشن اور کک بیکس کی بازگشت بھی ایک عرصہ سنائی دیتی رہی۔1996 تک سسٹم میں تین ہزارمیگاواٹ سرپلس بجلی موجود تھی لیکن ابھی ملک کی بڑی آبادی کو بجلی کی سہولت فراہم کرنا باقی تھا۔
نہی دنوں سیاسی بنیادوں پر بجلی کی فراہمی نے مستقبل کے بحران کی پیش بندی شروع کی،میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے، کا گیت دن میں درجنوں بارسنوایا جاتا اوراراکین اسمبلی ووٹوں کے حصول کیلئے بغیر کسی منصوبہ بندی کے بجلی نیلام کرتے رہے،لیکن کسی کو نئے منصوبے شروع کرنے کا خیال تک نہ آیا،کھمبوں کی قطاریں بڑھتی رہیں اور بجلی کم ہوتی گئی۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ نے دو ہزارآٹھ میں بحران کی شکل اختیار کرلی،بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ سولہ سے بائیس گھنٹے تک پہنچ گئی،صنعتوں کو تالے لگنے لگے اورلاکھوں محنت کش بے روزگار ہو گئے۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق لوڈشیڈنگ کے باعث معیشت کو 2008 سے 2014 تک پندرہ ہزار ارب کا نقصان پہنچا جبکہ چھوٹی، بڑی صنعتوں سے وابستہ تقریباً پچاس لاکھ ہنرمند اور مزدور بے روزگارہوئے، توانائی بحران کا سب سے خوفناک پہلو یہ تھا کہ چالیس فیصد سرمایہ کار ملک چھوڑ گئے۔
بجلی بحران کی وارننگ 2002 میں دے دی گئی تھی، جس سے نمٹنے کیلئے شارٹ اور لانگ ٹرم پالیسی کا اعلان کیا گیا،اس روڈ میپ کے مطابق دو ہزارنو تک 6130میگاواٹ سستی بجلی پیدا کی جانا تھی،کہا گیا کہ یہ بجلی پیدا ہو گئی تو2020تک ملک میں نہ صرف اضافی بجلی دستیاب ہو گی بلکہ اسکے نرخ بھی انتہائی کم ہوں گے،آنے والے بحران سے خبردار ہونے کے باوجود توانائی کے منصوبوں پر 2006 تک کام ہی شروع نہ ہو سکا۔
ہر سال کے ترقیاتی بجٹ میں ان منصوبوں کے لیے خطیررقوم بھی مختص کی جاتی رہیں، منصوبوں پر پیشرفت کی رپورٹس بھی دی گئیں مگر 2009 تک سسٹم میں 1 بھی یونٹ شامل نہ کیا جا سکا۔
اس کے بعدسلسلہ شروع ہوارینٹل پاورپلانٹس کا، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے نئے منصوبے بجلی تو نہ دے سکے لیکن مالیاتی کرپشن ضرورعروج پر جا پہنچی اربوں کے اسکینڈلز میں بیوروکریٹس،کنسلٹنٹس،وزراء اوروزرائے اعظم تک کے نام آنے لگے، کس منصوبے کے ساتھ کیا ہوا؟یہ کالم تفصیل کا تو متحمل نہیں لیکن اس کی ایک جھلک پیش کی جا سکتی ہے۔
969 میگا واٹ کا نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ 2009 میں مکمل ہونا تھا لیکن نیلم جہلم کی تعمیر 2018 میں مکمل ہوئی، اس دوران منصوبے کی لاگت 84 ارب روپے سےبڑھ کر 500 ارب تک جا پہنچی،اس منصوبے کی تعمیر کیلئے بجلی کے صارفین پر10 پیسے فی یونٹ ٹیکس لگا کر 55 ارب روپے اکھٹے کئے گئے ، صارفین کے پیسے سے تعمیر ہونے والے اس منصوبے میں آڈیٹر جنرل نے بے شمار بےقاعد گیوں کا انکشاف کیا۔
72میگا واٹ کا خان خواڑ منصوبہ 5 ارب روپے کی مالیت سے مکمل ہونا تھا جس پر 10 ارب روپے خرچ کئے گئے،مشینری اس قدرغیرمعیاری تھی کہ ابھی تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی۔ 130 میگا واٹ کا دبیر خوارپراجیکٹ اور 96 میگاواٹ کا جناح پن بجلی کا منصوبہ اپنی لاگت میں 3 گنا اضافے سے مکمل ہونے کے باوجود خاطر خواہ بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
4500 میگا واٹ کے دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح 3 مرتبہ ہوا یہ منصوبہ 2015 میں 900 ارب روپے کی مالیت سے مکمل ہونا تھا اس منصوبے کو سونے کی کان سمجھا گیا،زمین کی خریداری میں خوب لوٹ مار ہوئی اور اتنی تاخیر کی گئی کہ اب یہ منصوبہ 2ہزار 8 سو ارب روپے میں 2030 میں مکمل ہو گا۔ روشنیاں بانٹنے کے نام پر ملک کو اندھیر نگری بنانے کی یہ کرپشن کہانی ابھی جاری ہے

میاں شاہد گزشتہ 22سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ پرنٹ ،الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ میاں شاہد نے اس دوران سیاست،کرائم،کورٹ،ماحولیات،بین الاقوامی امو،خارجہ امور اور سماجی امور پر تحقیقاتی صحافت کی اور بیرون ملک تحقیقاتی پیپر بھی پڑھے۔رونامہ کائنات اور روزنامہ مسلمان میں چیف رپوٹر اوربیوروچیف ،روزنامہ تکمیل میں ایڈیٹر کے ایڈیٹر کے فرائض نبھائے۔جی این این ٹی وی کے بیوروچیف ہیں ۔4 بڑے ٹی وی چینلز کی لانچنگ ٹیم کا رکن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔اس عرصے میں وکلا تحریک،2005 کا زلزلہ،2010 کا سیلاب،ہنزہ میں عطاآباد میں موسمیاتی سانحہ،بے نظیر بھٹو کی شہادت،ملک میں دہشت گردی کی لہر،معاشی ،سیاسی اور آئینی بحرانوں کی کوریج کی اور تحقیقاتی اسٹوریز شائع کیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین