پاکستان
فیصلہ کن 4 ہفتے اور 4 آپشن
موجودہ پارلیمنٹ کی مدت 58 روز بعد ختم ہورہی ہے اور اس کے بعد کیا ہوگا ؟ یہی ایک بڑا سوال ہے جس کی وجہ سے ملک میں افواہوں، قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ یہ سوال ہم نے نہیں اٹھایا۔ بلکہ یہ کنفیوژن اس روز سے شروع ہوئی جب پی ٹی آئی کی حکومت ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی اور پھر نہ رکنے والا معاشی اور سیاسی بحران تھا،جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سیاسی حلقوں میں 12 اگست کو پارلیمنٹ کی مدت کے خاتمے کے بعد کے منظر نامے کو لے کر چار مختلف تھیوریز پیش کی جارہی ہیں۔ اور کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے اگلے چار ہفتے فیصلہ کن ہوسکتے ہیں۔
ایک آپشن تو یہ زیربحث ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کی جائے۔ یہ خواہش نما خبر آج سے تقریبا دس ماہ قبل حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بریک کی تھی کہ قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع زیرغور ہے ، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوسکتی ہے تو انہیں توسیع دینے والی پارلیمنٹ کی مدت کیوں نہیں بڑھائی جاسکتی؟ اب انہوں نے ایک بار پھر اپنی اسی بات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ زیرغور آسکتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد بظاہر تو بھولے بھالے سے نظر آتے ہیں لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ وہ بڑے باخبر آدمی ہیں۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ انہیں الیکشن نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ملک میں مکمل معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کو ہی ایک سال کے لئے آگے بڑھایا جائے۔ بہرحال یہ ایک بہت ہی دلچسپ سیاسی پیش رفت ہے کہ گذشتہ ستر سال سے پاکستان میں پارلیمنٹ کی مدت پوری نہ ہونے کا رونا رویا جاتا تھا لیکن آج بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کا معاملہ زیربحث ہے۔
دوسری خبر یہ کہ اگر قومی اسمبلی کی مدت نہیں بڑھتی تو 12 اگست کے بعد بنائی جانے والی نگران حکومت کا دورانیہ ایک سال تک جاسکتا ہے۔ ممکنہ طور پر ٹیکنو کریٹس پر مشتمل یہ حکومت تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے بنائی جائے گی۔ کہا جارہا ہے کہ نون لیگ کی حکومت دانستہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل نہیں کررہی تاکہ سخت فیصلوں کے نتیجے میں آنے والے عوامی ردعمل سے خود کو بچایا جائے۔ نون لیگ میں یہ رائے خاصی تقویت رکھتی ہے کہ بدترین معاشی حالات کی وجہ سے پارٹی نے بہت سیاسی نقصان اٹھالیا، اب اس سلسلے کو نہ صرف یہیں روکا جائے بلکہ جاتے جاتے جولائی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی مقبولیت کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی اور کڑوے فیصلے آنیوالی نگران حکومت کے لئے چھوڑ دئیے جائیں گے، اس بدنامی کے عوض نگرانوں کو تین یا چھ ماہ کی بجائے ایک سال کا اقتدار دیا جائے تاکہ وہ آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرسکیں۔ اس عرصہ میں نون لیگ کو بھی اپنے دور کی مہنگائی عوامی یاداشت سے کھرچنے کا موقع مل جائے گا۔
تیسرے آپشن کے طور پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں۔ اس سلسلہ میں اگر وزیراعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کی مدت کی تکمیل سے ایک روز قبل، یعنی 11 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کردیتےہیں تو نگران حکومت کا دورانیہ 60 کی بجائے 90 روز تک ممکن ہوسکے گا۔ ایسا اقدام انتخابات کے بروقت ہونے کا ایک مضبوط اشارہ ہوگا۔
چوتھا آپشن سب سے خطرناک، حالات کو سنبھالا دینے کے نام پر مارشل لا، ایسا اگرچہ آخری اور کافی مشکل کام ہے لیکن اگر پاکستان میں فوجی حکومت کی تاریخ دوبارہ دہرائی جاتی ہے تو ہمیشہ کی طرح اس کے اسباب مقامی سے زیادہ ریجنل ہوں گے۔ خطے میں اپنی بالادستی کے لئے بڑھتے ہوئے خطرات کو روکنے امریکی اقدامات ایک بار پھر پاکستان کی اندرونی سیاست کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ ایسے معاملات میں پاکستان میں بدترین معاشی اور سیاسی صورتحال فوجی مداخلت کے لئے بظاہر ایک مضبوط جواز فراہم کررہی ہے۔
قومی اسمبلی کی معیاد میں توسیع، نگران حکومت کی نوعیت اور مدت سمیت تمام معاملات پر اقتدار کے ایوانوں میں سٹیک ہولڈرز نے اپنے اپنے کارڈ سینے سے لگا رکھے ہیں۔ اور مذکورہ چار آپشنز کے لئے اگلے چار ہفتے فیصلہ کن قرار دئیے جارہے ہیں۔