ٹاپ سٹوریز
یوٹیوب پر ہتک عزت قانون لاگو ہوتا ہے، کوئی ریگولیٹری قانون موجود نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر آٸے۔
جہانگیر جدون نے کل کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ حکومت سے پوچھا جائے کہ عامر میر کیس میں عدالتی احکامات پرعمل ہوا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حکومت سے پوچھیں؟ اس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ وفاقی حکومت سے پوچھیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آرڈر بھی آپ کیخلاف پاس ہوگا،آپ کے مؤکل کیا وزیر ہیں ؟ جہانگیر جدون نے اثبات میں جواب دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ بطور وزیر وہ بے یارومددگار ہیں؟ اس پر جہانگیر جدون نے کہا ! جی وہ ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ کون پراسرار ہے جو ملک چلا رہا ہے ؟۔
جہانگیر جدون نے کہا کہ اس بارے میں سب کو پتہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسی باتیں مت کریں یہ کورٹ ہے اکھاڑہ نہیں۔
صحافیوں کی جانب سے متفرق درخواست دائر نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اظہار تشویش کیا اور کہا کہ جب تک تحریری طور پر ہمارے سامنے کچھ نہیں آئے گا آرڈر کیسے جاری کریں ؟ سپریم کورٹ میں 3 رکنی کمیٹی ہے وہ طے کرتی ہے درخواست آنے کے بعد طے کرے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے نئی کوئی درخواست دی ہے؟
صدرپریس ایسوسی ایشن عقیل افضل نے کہا کہ ابھی تک فہرست ہی نہیں ملی کہ کن صحافیوں کیخلاف کارروائی ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کل ہم نے محتاط رہتے ہوئے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا، کوئی بندہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں،ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھ رہے ہیں،اس قانون سے متعلق کیس براہ راست نشر ہوا تھا پورے ملک نے دیکھا،توقع رکھی تھی آج صحافی کوئی متفرق درخواست فائل کرتے،ہمیں کوئی کاغذ تو دکھائیں اس کیس میں آگے کیسے بڑھیں،ہم قانون پر چلنا چاہتے ہیں،جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن تو سامنے آئے پتہ چلے کس قانون کے تحت بنی ہے۔
صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ نے کہا کہ صرف 10 منٹ دیدیں متفرق درخواست دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ ایک ادارہ ہے کوئی اکھاڑہ یا پارلیمان نہیں، عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں،تنقیدسے اعتراض نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی پر اعتراض ہے،عدالت قانون کے مطابق ہی چلے گی۔
وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے اسٹیک ہولڈرز سے مل کر سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق بنائے،
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت ایسا حکم جاری کر سکتی ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے،جو قانون ہے وہ صرف فوجداری کارروائی کیلئے ہے،یوٹیوب پرہتک عزت قانون تولاگوہوتاہےلیکن کوئی ریگولیٹری قانون نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے جب قانون ہی نہیں تو کیا کریں؟ عدالت صرف اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بیٹھنے کی درخواست کر سکتی ہے۔