Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

کرناٹک میں شکست، مودی اور بی جے پی کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟

Published

on

بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی گزشتہ ہفتے جنوبی ہند میں اپنا گڑھ تصور ہونے والی ریاست کرناٹک میں انتخابی شکست سے دوچار ہوئی ہے، کرناٹک کو جنوبی ہند میں ہندو قوم پرست نظرئیے ‘ ہندوتوا’ کے لیے ایک لیبارٹری تصور کیا جاتا ہے، ریاستی الیکشن میں بی جے پی کی شکست کو کچھ تجزیہ کار مودی کے لیے پریشانی کی علامت قرار دے رہے ہیں کیونکہ مودی اگلے سال کے عام انتخابات میں مزید دس سال حکمرانی کی منصوبہ بندی کئے ہوئے ہیں۔

کرناٹک کے ریاستی الیکشن میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے 135 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور حکمران جماعت بی جے پی کو 66 نشستیں مل پائیں۔ اس کامیابی سے وزیراعظم مودی کے مخالفین کو حوصلہ ملا ہے۔

کانگریس نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ کے لیے سدارمیا کو نامزد کیا ہے، جس سے ریاست کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا ہے۔

بھارت کے ایک میڈیا ہاؤس، دی وائر، نے لکھا کہ کانگریس نے ثابت کیا ہے کہ کانگریس، بی جے پی کے ساتھ آمنے سامنے کے مقابلے میں جیت سکتی ہے، اگرچہ بی جے پی ہندوتوا اور مودی کو اپنی انتخابی مہم کے سرخیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

کرناٹک کا ریاستی الیکشن اس سال ہونے والے پانچ ریاستی انتخابات میں پہلا ہے، عام انتخابات سے پہلے ہونے والے ریاستی الیکشن قومی انتخابی جائزے کے لیے لٹمس ٹیسٹ کا کام دیتے ہیں۔

یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے سنٹر فار ایڈوانس سٹڈی آف انڈیا سے وابستہ روہن وینکٹ کہتے ہیں کہ کرناٹک میں بھاری نقصان کے باوجود مودی کا قومی سٹیٹس برقرار ہے اور بی جے پی اگلے عام انتخابات میں فرنٹ رنر کے طور پر حصہ لے گی۔ اس سال ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں سمیت چار ریاستی الیکشن باقی ہیں، ان سب میں بی جے پی ہارتی ہے یا ایک، دو، اس کے بعد ہی ان کی حمایت کمزور پڑنے کا اندازہ ہو سکے گا۔

کرناٹک کی 65 ملین آبادی میں 84 فیصد ہندو ہے، بی جے پی نے ہندو اکثریتی آبادی کو زیر اثر لینے کی بھرپور مہم چلائی، حالیہ برسوں میں ریاستی اسمبلی سے ایسے قوانین منظور کرائے گئے جن کی جڑیں ہندوتوا میں ہیں، ان قوانین میں گائے کی فروخت اور ذبیحہ کے قوانین بھی شامل ہیں،ریاستی اسمبلی سے تبدیلی مذہب کے متعلق متنازع قانون بھی منظور کیا گیا، اس قانون کے بعد بین المذاہب شادیاں تقریبا ناممکن ہو گئی ہیں۔

پچھلے سال کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب اڑھنے پر بھی پابندی لگائی گئی، مسلمانوں نے اس پر احتجاجی مظاہرے کئے اور ریاست میں مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں دراڑ گہری ہوئی۔

بھارت کے ایک ممتاز تھنک ٹینک سنٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ راہول ورما کہتے ہیں کہ بی جے پی کا ایجنڈا پاپولسٹ سیاست پر منحصر تھا لیکن یہ نظریاتی پلیٹ فارم بی جے پی کو اضافی ووٹ دلوانے میں ناکام رہے۔کانگریس مذہبی، سماجی، معاشی اقلیتوں کے ووٹروں کا سماجی اتحاد زندہ کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بی جے پی کے نظ ریاتی ایجنڈے کا کوئی خریدار نہیں، تاہم اس نے کام نہیں کیا۔ بی جے پی کی ریاستی حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، اس لیے نظریاتی ایجنڈا اثر نہیں دکھا سکا۔

مودی نے کرناٹک میں خود انتخابی مہم چلائی، ایک درجن سے زیادہ ریلیاں کیں، شہر کی سڑکوں پر گھومے، حامیوں سے ملاقاتیں کیں اور پرجوش تقریعیں بھی کیں۔ مودی کی قومی سطح پر بھرپور مقبولیت ریاست میں پارٹی کے لیے ووٹوں میں نہیں بدل سکی۔

کانگریس نے اپنی مہم کو مقامی مسائل تک محدود رکھا،کرناٹک کی بی جے پی کی حکومت گورننس اور کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، بی جے پی کی مقامی حکومت پر اعلیٰ سطح پر کرپشن کے الزامات بھی تھے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ قومی انتخابات میں ہندو نیشلسٹ پالیسیاں بظاہر ناقابل شکست تھیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بی جے پی کے پاس مودی نہ ہوتے تو قومی انتخابات میں بھی بی جے پی ناکام ہوجاتی، اب اگر ریاستی سطح پر مخالفین نے کارکردگی اور قوم پرستی کا مقابلہ کر لیا ہے تو عام انتخابات میں کیا جا سکتا ہے

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین