ٹاپ سٹوریز
کیا عمران خان نے پارٹی 9 مئی والوں کے حوالے کردی؟
عمران خان نے اپنے لئے ملکی سیاست میں سکڑتے ہوئے سپیس کو دیکھتے ہوئے خود ہی اس کی سربراہی سے دستبرداری اختیار کرلی ہے اور پارٹی کو انتخابات میں ڈس کوالیفیکیشن سے بچانے کے لئے بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی چئیرمین بنادیا۔
یہ ایک لحاظ سے اسٹبلشمنٹ کو مفاہمت کا پیغام تو ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بانی تحریک انصاف نے نئی تنظیم کو مزاحمتی تڑکا بھی لگایا ہے۔ نئی تنظیم میں ایسے رہنماؤں کو بڑے عہدے دے دئیے گئے ہیں جو 9 مئی واقعات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث ہیں یا وہ ان الزامات پر مقدمات بھگت رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر برقرار رکھے جانے والے عمرایوب خان 9 مئی کے واقعات میں کئی مقدمات کی وجہ سے طویل عرصہ سے روپوش ہیں۔
نومنتخب صدر پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد بھی 9 مئی واقعات میں مبینہ ملوث ہونے پر مقدمات بھگت رہی ہیں۔
تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد پر یہ الزام ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے میں ان کا اہم کردار تھا۔ جس کے باعث ان پر مختلف نوعیت کے تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جن میں لوگوں کو اشتعال دلانے، توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ دیگر دفعات شامل ہیں۔
نومنتخب صدر خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پر آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات ہیں۔علی امین گنڈاپور آڈیولیک کیس میں بھی ملوث ہیں۔ جس میں علی امین گنڈاپور مسلح افراد کو اسلام آباد داخل کرنے کی بات کررہے تھے۔ علی امین گنڈا پور پر ایک مقدمہ داجل چیک پوسٹ سے پکڑے گئے اسلحہ کی سمگلنگ کا بھی ہے، جس کے بارے میں ڈی پی او نے دعویٰ کیا تھا کہ علی امین گنڈا پور یہ اسلحہ زمان پارک پہنچانا چاہتے تھے۔
صدر سندھ حلیم عادل شیخ پر بھی کرپشن، فراڈ اور دہشتگردی کے مقدمات ہیں۔ حلیم عادل شیخ پر حسان نیازی کو فرار کرانے کا الزام ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی رہنما ایسے بھی ہیں جن کے خاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔ ان میں مراد سعید، حماد اظہر، فرخ حبیب، علی امین گنڈا پور، اسد زمان، شوکت بسرا، زبیر نیازی، میاں اسلم اقبال سمیت دیگر صوبائی اور مرکزی قیادت کے افراد شامل ہیں۔
مختلف شہروں میں درج ہونے والے کئی مقدمات اسے بھی ہیں جن میں پوری پوری لیڈرشپ کو نامزد کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق وفاقی دارالحکومت سے گرفتار ہونے والے زیادہ تر رہنماؤں کے خلاف ایم پی او کے تحت کارروائی کی گئی ہے مگر دیگر مقدمات نئے سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر درج کیے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار جاوید فاروقی سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی نئی تنظیم کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کو بیک وقت دو پیغام دے رہے ہیں۔ نو منتخب چئیرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی صورت میں وہ مقتدرہ کے ساتھ صلح اور تجدید تعلقات کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف عمرایوب، یاسمین راشد، علی امین گنڈاپور اور حلیم عادل شیخ کو عہدے دے کر پارٹی کے پرجوش اور مزاحمتی کارکنوں کا حوصلہ بھی بڑھا رہے ہیں۔
جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ عمران خان سفید جھنڈی لہرانے کے باوجود اسٹبلشمنٹ پر واضح کررہے ہیں کہ وہ 9 مئی سازش کیس کو قطعا سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ پارٹی کو 9 مئی واقعات کے مبینہ ذمہ داروں سے الگ نہیں کررہے بلکہ وہ ان رہنماؤں اور کارکنوں کی پشت پر مکمل طور کھڑے ہیں۔
جاوید فاروقی نے ایک اور معاملہ کی جانب توجہ دلائی کہ عمران خان اپنے ووٹر سپورٹر کو الیکشن لڑنے کے لئے ایک ایسی تنظیم دے رہے ہیں جس کے کم و بیش تمام عہدیدار، بشمول بانی قائد، جیلوں میں ہیں یا مفروری، روپوشی پر مجبور ہیں۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان الیکشن لڑیں گے یا پھر بالآخر بائیکاٹ کی طرف جائیں گے۔