Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

گدھے، گھوڑے کی معیشت اور 21 ویں صدی کا پاکستان

Published

on

گزشتہ دو تین روز سے پاکستان میں گَدھوں اور بھینسوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق خبریں ہر چینل اور میڈیا پر گردش کرتی نظر آرہی ہیں۔  اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال ستاون لاکھ گدھے تھے جو اب بڑھ کر اٹھاون لاکھ ہو گئے ہیں۔ ویسے تو بحیثیت ایک زرعی ملک پاکستان کی معیشت کا انحصار، استحکام  اور ترقی لائیو اسٹاک اور زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ لیکن حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان نہ صرف اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ ساتھ ہی مہنگائی میں اضافہ، آمدن میں کمی اور معاشی شرح نمو کا ہدف 5.01 فیصد کے مقابلے میں 0.29 فیصد رہی۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے توصنعتی شعبے کی ترقی منفی 2.94 فیصد رہی جبکہ آئی ٹی اور ٹیلی کام میں ترقی کی شرح 6.93 فیصد رہی۔ 2017میں پاکستان  دنیا کی 24ویں معیشت بن چکی تھی لیکن بدقسمتی سے 2022میں پاکستان 47ویں نمبر پر آگیا۔

پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی، دہرے بحران میں گِھرا ہوا نظر آتا ہے۔ کئی برس سے جاری اقتصادی بحران نے ادائیگیوں کے مکمل توازن کو ہنگامی صورت حال میں تبدیل کر دیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے پاس تیل جیسی ضروری درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالرز ختم ہو رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے مدد تعطل کا شکار ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی قیادت متعدد ضروری اصلاحات کرنے سے گریزاں ہے۔ تو دوسری جانب ملک میں تیزی سے پھیلتی سیاسی انارکی، عدم استحکام، افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور ایک بار پھر بڑے پیمانے پر سر اٹھاتی دہشتگردی پاکستان کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے، پاکستان‘ بحیثیت ریاست اس وقت ایک محاذ پر پر نہیں بلکہ متعدد محاذوں پر لڑ رہا ہے۔

پاکستان کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران کے جائزے اور تجزیے کے لیے جمعرات کو جاری ہونے والے اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ پاکستان مالی سال 2022-23 کے لیے کسی بھی اقتصادی ترقی کے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہا ساتھ جی ڈی پی کی شرح نمو 0.3 فیصد تھی، جب کہ زراعت، صنعتی پیداوار اور برآمدات سبھی اپنے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کی معیشت ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار ہے کیونکہ یہ بیرونی قرضوں کی اعلیٰ سطح کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ کئی مہینوں کی سیاسی افراتفری نے ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی روک دیا ہے۔ ملک کی گزشتہ 76سال کی تاریخ میں پاکستان مستقل طور پر سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔

76سال بعد بھی اکیسویں صدی کے پاکستان میں ہمیں  آئی ٹی کے شعبے میں کوئی خاطر خوا ترقی نظر نہیں آتی بلکہ زراعت کا شعبہ بھی زوال کا شکار ہے۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کی شرح الگ زوال کا شکار ہے۔ ایک زرعی ملک جو گندم،چاول، چینی اور کپاس جیسی اجناس کی پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مانا جاتا تھا آج دوسرے ممالک سے درآمد کررہا ہے۔

اکیسویں صدی میں آدھی دنیا اپنی معیشت کو انڈسٹریلائیزیشن سے نکال کر پوسٹ انڈسٹریلائیزیشن کے فیز میں لے جا چکی ہے اور ہم ابھی بھی گدھوں، بھینسوں، گھوڑوں، مرغیوں اورانڈوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

یقیناً اس سال بھی دفاعی بجٹ پر ایک بار پھر سوال اٹھائے جائیں گے لیکن یہاں یہ غور و فکر ضروری ہے کہ اب دنیا کے بہت سے ممالک روبوٹکس اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کے ذریعے فوجی طاقت کو بڑھانے اورانقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے حکومتی اور ذمہ دار اداروں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹکس اور کوائٹم کمپیوٹنگ کو پیشہ ورانہ طور پراور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے یقینا بجٹ میں خطیر رقم مخٹص کرنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مختلف طریقوں، ایپس اورمختلف ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے صرف سیاستدانوں اوربااثر افراد کی آڈیوزویڈیوز بنا کر ان کی تشہیر کردینا ملک کی ترقی اور تعمیر کے لیے نہ صرف خطرہ ہیں بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بھی ہیں۔

یاد رہے کہ فوج کے لیے روبوٹکس ٹیکنالوجی کئی وجوہات کی بنا پر اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کو دو دہائیوں سے جاری دہشتگردی کی جنگ میں فوجیوں، جوانوں، بچوں اور عورتوں سمیت تقریبا تیس ہزارجانیں ضائع ہوئیں جبکہ ان میں شہید ہونے والے تقریبا آٹھ ہزار فوجی تھے۔ لہذا یہاں ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ دفاعی نظام میں مصنوعی ذہانت یا روبوٹکس کو ہم آہنگ کر کے فوجی جانوں کے ضیاع کے بغیر دہشتگردوں کے خلاف زیادہ مؤثر آپریشنز اور فرائض کی انجام دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر روبوٹ کو بموں کو ناکارہ بنانے، بارودی سرنگوں کے میدانوں کو صاف کرنے اور ایسی عمارتوں میں داخل ہونے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جن میں دہشتگرد کارروائیوں کا یا دہشتگردوں کی موجودگی کا خطرہ پہلے سے موجود ہو۔

دوسری جانب روبوٹ کو خطرناک یا مشکل رسائی والے علاقوں میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، روبوٹ کو دشمن کے علاقے پر پرواز کرنے یا معلومات جمع کرنے کے لیے پانی کے اندر تیرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ  روبوٹ کو انسانی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، انہیں اضافی فائر پاور اور تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

مانا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے، روپیہ گر گیا ہے اور ملک مزید درآمدات کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس کی وجہ سے صنعت میں شدید گراوٹ آئی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کو پچھلے سال مون سون کے ریکارڈ سیلاب نے بھی تباہ کر دیا تھا۔ حکومت پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے بھی بہت زیادہ دباؤ ہے کہ وہ ایک اہم بیل آؤٹ پیکج کی ایک اور آخری قسط حاصل کرنے کے لیے معاشی پالیسی کو سخت سے سخت ترین کرے۔

لیکن جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں تیزی سے برپا ہوتے انقلاب کے دور میں اس وقت بحیثیت ریاست ’پاکستان‘ کو اپنی افواج کو مصنوعی ذہانت سمیت تمام تر جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی ضرورت ہے پھر چاہے اس کے لیے بجٹ میں کتنی بھی گنجائش نکالنی پڑے۔ اس ٹیکنالوجی کو اپنے ہتھیاروں میں شامل کرکے، پاکستان بحیثیت ریاست اپنی افواج کی فائر پاور کو بڑھا سکے گا، اور اپنے فوجیوں کی بقا کو بڑھا سکتا ہے۔ اس سے پاکستان کو اپنے مخالفین پر ایک اہم برتری حاصل ہوگی اور ملک کو نقصان سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔

خوشبو فرید خان غوری جامعہ کراچی، پاکستان کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ریسسرچ اسکالر اور تحقیق کے کام کےعلاوہ تقابلی سیاست اور گلوبل ایشوزکے لیے تدریسی معاون کی حیثیت خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بحیثیت براڈ کاسٹ جرنلسٹ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں 12 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتی ہیں۔ اس وقت ڈیجیٹل بزنس چینل ’کاروبارٹی وی‘ سے بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر/سوشل اور کنٹینٹ میڈیا مینیجر منسلک ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالے، رپورٹس، بلاگز، کالمز مختلف پرنٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں انسانی حقوق، عالمی سیاست، صنفی مساوات اور سائبر اسپیس میں گلوبل پاور پالیٹکس میں ابھرتے ہوئے سیکیورٹی خطرے سے متعلق موضوعات شامل ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین