تازہ ترین
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور، اپوزیشن کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظورکرلیا گیا۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج اور نعرے بازی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شق وارمنظوری کا عمل مکمل ہوا جبکہ اپوزیشن نے مسودہ کے کاپیاں پھاڑ دیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، مسلم لیگ (ن) رکن اسمبلی بلال اظہر کیانی نے وزارت پارلیمانی امور کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعد الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا تو اپوزیشن اراکین کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی۔
واضح رہے کہ حکومت الیکشن ایکٹ میں یہ ترمیمی بل مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لائی ہے جس میں سپریم کورٹ نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمانی پارٹی بلکہ مخصوص نشستوں کا بھی حقدار قرار دیا اور انہیں پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت کی قیادت جس میں وہ شمولیت اختیار کرنا چاہیں سے سرٹیفکیٹ لے کر الیکشن کمیشن کو دوبارہ بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
آج ایوان کی کارروائی کے دوران اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے نعرے بازی کرتے رہے، اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے بھی آئے، اپوزیشن ارکان نے بل نامنظور کے نعرے، عدلیہ اور جمہوریت پر حملہ نامنظور کے نعرے لگائے۔
اپوزیشن نے الیکشن ترمیمی بل کو غیرآئینی قرار دیا اور کہا کہ حکومت پر الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حصول کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ وزیر قانون نے بل کو آئین کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کوکمیٹی میں بحث کیلئےبھجوایا جائے، قانون سازی ملک کے مفاد میں ہونی چاہیے، قانون سازی کےخلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔
جس کے جواب میں اعظم نذیر نے کہا کہ قانون سازی کرنا اس معززایوان کا اختیار ہے۔ ایوان میں بلال کیانی نے بتایا کہ ایک شخص مقررہ وقت میں اگر پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کراتا تووہ آزاد تصور ہوگا جبکہ بل میں تین شقیں وہی ہیں جو پہلےسے آئین میں موجود ہے۔
بل کے اہم نکات
- اگرکوئی رکن پارٹی ٹکٹ جمع نہیں کراتاتووہ آزاد تصورہوگا۔
- جوشخص 3 دن کسی جماعت میں شامل ہوتو وہ کسی اورجماعت نہیں جاسکتا۔
- جس جماعت کی کوئی سیٹ نہیں، مخصوص نشستیں نہیں لےسکتی۔
- سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کی ترامیم کثریت رائے سے مسترد
سنی اتحاد کونسل کے صاحبزاد صبغت اللہ نے ترمیم پیش کی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سنی اتحاد کونسل رکن کے ترمیم کی مخالفت کی، رکن اسمبلی صبغت اللہ کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد ہوگئی۔ علاوہ ازیں علی محمد خان نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پیش کی، وزیر قانون نے علی محمد خان کی ترمیم کی بھی مخالفت کی جس کے بعد علی محمد خان کی ترمیم بھی کثرت رائے سے مسترد ہوگئی۔
الیکشن ترمیمی بل غیرآئینی ہے، بیرسٹرگوہر
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ قومی اسمبلی میں غیرقانونی اقدام ہورہا ہے، پی ٹی آئی کومخصوص نشستوں سےمحروم رکھنےکے لیے بل لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فارم 45 کے مطابق پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سےجیت چکی ہے، نوازشریف کی خود کی سیٹ بھی فارم 45 کے مطابق نہیں، الیکشن سے قبل ہی ہم سے انتخابی نشان لےلیا گیا۔
بیرسٹر گوہر نے بھی واضح کیا کہ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ انہوں نے حکومت اور ن لیگی قائد نواز شریف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف حسینہ واجد سے فرارہونے کاراستہ پوچھ لیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کاحق ہے، الیکشن ایکٹ بل کیا ہےحکومت کےاپنےاراکین لاعلم ہے، سیاسی جماعت کو اگرموقع نہیں دیں گےتوآپ کابھی حال حسینہ واجد جیساہوگا۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل میں کیا ہے؟
الیکشن ایکٹ 2024 میں دو ترامیم متعارف کروائی گئی ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 اور دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے۔ پہلی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کوئی رکن اسمبلی اپنی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کر سکتا۔
دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے کسی جماعت نے وقت پر فہرست جمع کروا رکھی ہو۔
ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق یہ دونوں ترامیم منظوری کے بعد فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی۔
ماہرین سمیت خود پی ٹی آئی کا بھی کہنا ہے کہ ان ترامیم کی منظوری کے بعد پارٹی کو مخصوص نشستیں ملنا مشکل ہو گا کیونکہ بل کا اطلاق ’ریٹروسپیکٹو‘ یعنی ماضی سے ہوگا۔
واضح رہے کہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ایک فیصلے میں لکھا تھا کہ پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں لینے کی حقدار ہے۔