کالم

انتخابی بے یقینی، کنگز پارٹی اور ہنگ پارلیمنٹ

Published

on

ملک میں قومی انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا ریا ہے وہ ہے کہ کیا انتخابات ہو رہے ہیں یا پھر انتخابات 8 فروری کو ہو جائیں گے؟ انتخابات کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی  نے باور کر چکے ہیں کہ انتخابات کے بارے میں فکر مند نہیں ہونے کی ضرورت ہی نہیں لیکن عوام کے خدشات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے.

عوام کو انتخابات کے نتائج کا بارے میں علم ہوسکتا ہے کہ کونسی سی جماعت اقتدار میں آئے گی لیکن کسی بات کا یہ یقین نہیں ہے  کہ انتخابات ہوں گے۔ ماضی میں یہ صورت حال مختلف تھی کہ انتخابات  ہونے کا  تو یقین ہوتا لیکن نتائج کے بارے میں پیشگوئی کی جاتیں تھی۔

یہ تیسرا موقع ہے جب  فروری کے مہینے میں انتخابات ہونگے پہلی مرتبہ 3 فروری 1997 کو ہوئے تھے جب مسلم لیگ نون کو ہیوی مینڈیٹ ملا تھا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی کو 17 نشستیں ملیں تھیں۔ دوسری مرتبہ 18 فروری 2008 میں انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے یہ انتخابات جنوری میں ہونے تھے لیکن بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ سے تاریخ میں توسیع کر دی گئی تھی۔ اب تیسرا موقع ہوگا جب 8 فروری کو عام انتخابات ہونگے۔

آخر کار وہ کیا وجہ ہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات نہ ہونے کے اندیشے عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں.. اس سوال کا ایک  ہی جواب  ہے کہ پہلے پنجاب اور کے پی کے انتحابات نہیں ہوسکے اور ایک طویل ترین نگراں حکومت چل رہی ہے جو ملکی تاریخ کی طویل ترین نگراں حکومتیں ہیں.

اس کے بعد قومی اسمبلی کی معیاد مکمل  ہونے پر اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے محض چند دن پہلے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تاکہ انتخابات 60  کے بجائے 90 دن میں کرائے جاسکیں  اور پھر حلقہ بندیوں کا شوشہ چھوڑ دیا گیا؟ یہ پہلا موقع ہے کہ جمہوری سیٹ اپ کے ہوتے ہوئے انتخابات 90 دنوں میں ہونے کے بجائے 180 دنوں میں ہونگے. یہ آئین کی کھلی خلاف وزری ہے لیکن اسے اس طرح دیکھا جا رہا ہے جیسے معمول ہو۔

دوسری طرف ایک سابق وزیر اعظم خود ساختہ جلاوطنی کے بعد ملک واپس آگئے ہیں اور ایک سابق وزیر اعظم  اپنے خلاف مقدمات پر جیل میں ہیں اور ان کی جماعت تحریک انصاف زیر عتاب ہے۔ انتخابات کے تاریخ کا تو اعلان کر دیا گیا لیکن انتخابی شیڈول جاری ہونا ہے اور اس میں دو ماہ لگ سکتے ہیں۔

 نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کی جماعت مسلم لیگ نون میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں لیکن مینار پاکستان پر استقبالی جلسہ کے بعد مسلم لیگ نون نے کوئی جلسہ نہیں کیا۔ اُدھر نومولود سیاسی جماعت  استحکام پارٹی نے جلسے شروع کر دیئے ہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال میں ہونے والے جلسے میں اپنے منشور کا بھی اعلان کر دیا۔

پیپلز پارٹی نے ابھی تک اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کیں اور تحریک انصاف زیر عتاب ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی سرگرمی نہیں ہو رہی  بلکہ انہیں اپنے خلاف ریاستی کارروائی کی وجہ سے سرگرمیاں شروع کرنے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے بارے میں تحفظات کی مخلتف وجوہات میں سے ایک وجہ اُس جماعت کی مقبولیت کا توڑ کھوجنا ہے جس کا ووٹ زیر عتاب آنے کے باوجود قائم  ہے بلکہ اس میں اضافہ  ہوا۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن وہ بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔

سیاسی جماعتیں کسی بھی ریاست میں عوام کی نمائندہ ہوتی ہیں اور عوام میں اس مقبولیت اور قبولیت انہیں مزید اہم بنا دیتی ہے۔ ماسوائے کنگز پارٹی کے کسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹ بینک کو توڑنا آسان کام نہیں ہے۔ کنگز پارٹی راتوں رات میں بن جاتی ہیں اور اتنی ہی جلدی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دو ایسی سیاسی جماعتیں ہیں، جن کا ووٹ بینک کم کرنے  کی کوششیں ہوئیں لیکن ناکامی کا سامنا رہا۔

جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد اکتوبر 1977 میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن اس اعلان کے بعد دو مرتبہ نئی تاریخ دی گئی لیکن انتخابات نہیں کرائے۔ اس کی ایک وجہ بلدیاتی انتخابات کا تجربہ تھا جس میں پیپلز پارٹی نے عوام دوست کے فورم سے انتخابات میں حصہ لیا اور اسے کامیابی ہوئی۔ اس تجربہ کے بعد انتخابات کرانا ایک کٹھن کام تھا۔ اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی پہلے 1988 میں اقتدار میں آئی پھر 1993 اور آخری بار 2008 وزارت عظمیٰ اس کے حصے میں آئی۔ آج پیپلز پارٹی کے کارکن بڑے فخر سے یہ بات کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق  کی 11 برس کی آمریت بھی  پارٹی کو ختم نہیں کرسکی۔

اسی طرح جنرل پرویز مشرف کا دور مسلم لیگ نون کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ نون قائم رہی اور اُن افراد نے اس میں دوبارہ شمولیت اختیار کی جو کنگز پارٹی مسلم لیگ قاف میں جاچکے تھے۔

شائد یہ ہی وجہ ہے پیپلز پارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ماضی کے رقیب کیا رفیق بن سکیں گے یا نہیں؟

یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلم لیگ نون  کیلئے کنگز پارٹی والی سہولیات کے بعد  تحریک انصاف کے ووٹ بینک کا سامنا کرنا ممکن ہوگا؟ مسلم لیگ نون نے اس کا کوئی توڑ نکالا ہے یا نہیں؟ سب کے ذہنوں میں ابھی یہ بات تازہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنی کنگز پارٹی کو سادہ اکثریت دلوانے میں کامیاب نہیں ہوئے اور انہیں پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان کی وفا داری تبدیل کرکے حکومت تشکیل دینا پڑی تھی۔

ہوسکتا ہے کہ یہ وہ خدشات ہیں جن کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اندیشے سر اٹھا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ سیاسی منظر نامے کی بنیاد پر معلق قومی اسمبلی وجود میں آئے جو نا تو سیاسی جماعتوں اور نہ ہی جمہوریت کیلئے اچھا شگون ہوگی۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version