پاکستان
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!
قانون میں ترامیم، انسانی اسملنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن، کارروائیاں، بینک اکاؤنٹ منجمد، افسوس، بیانات پر بیانات اور حقائق پر حقائق سامنے آتے رہیں گے لیکن سب لاحاصل ہے!
یہ سلسلہ نہیں رکے گا! کیونکہ آئینِ پاکستان میں قوانین بھی موجود ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں، مجرم کا بھی پتا ہے، نیٹ ورک کا بھی علم ہے، نہیں ہے تو صرف قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔
یونان کشتی حادثہ کی وجہ سے پوری قوم سوگوار ہے۔ حادثے میں نہ جانے کتنے خاندانوں کے چشم و چراغ لقمہ اجل بن گئے۔ کتنے خاندان تاحال اپنے پیاروں کے جسد خاکی کے انتظار میں رت جگوں کا شکار ہوں گے۔ حادثے میں کتنے ہی خاندان اجڑ گئے۔ لیکن یہ حادثہ پہلی بار تو پیش نہیں آیا! یونان کا خونی ساحل ایسے بہت سے حادثات کا گواہ ہے۔
گزشتہ ہفتے بدھ کو یونان کے ساحل کے قریب، بحیرہ روم میں تارکین وطن کے بحری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد اب 80 سے زائد لاشیں نکالی گئی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 750 تک افراد مچھلی پکڑنے والی کشتی پر سوار تھے جو لیبیا سے اٹلی کی طرف روانہ ہوا اور پھر گزشتہ ہفتے یونان کے قریب الٹ گیا۔ لیکن آج سوالات بڑھ رہے ہیں۔ کشتی میں صرف پاکستانی ہی نہیں اور بھی دوسرے ممالک کے افراد سوار تھے۔ ایسے انسانیت سوز انداز میں جس طرح کشتی میں تارکینِ وطن کو سوار کیا گیا، کیا یونانی اور یورپی حکام اس سانحے کو روکنے کے لیے مزید کچھ کر سکتے تھے؟ جب کشتی روانہ ہوئی تو میری ٹائم حکام کہاں تھے۔
پاکستان کے حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات کی جائے تو ہم ہمیشہ حادثات کے بعد ہی کیوں جاگتے ہیں؟ کیا غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو بیرونِ ملک بھجوانے کا یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا حکام کو ایسے نیٹ ورک کے بارے میں کچھ عِلم ہی نہیں ہے یا کالی بھیڑیں سسٹم کے اندر ہی موجود ہیں؟ تمام تر جانکاری اور حقائق جاننے کے باوجود حکام قوانین پر عملدرآمد کرانا نہیں چاہتے؟ انسانی اسنگلنگ کے غیر قانونی نیٹ ورکس کو پکڑنا نہیں چاہتے؟
میڈیا پر سامنے آنے والے متاثرہ افراد کی مختلف کہانیوں اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طریقے سے انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں میں کھلونا بننے والے افراد میں کوئی بھائی خاندان کا واحد سہارا تھا تو کوئی بیٹا کئی روز سے بھوکا تھا، کسی کو ایجینٹ نے ورغلایا تو کسی کو حالات نے اس مقام تک پہنچایا۔
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں درجنوں پاکستانیوں کی موت کا خدشہ ہے۔ گذشتہ بدھ کو تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500 متاثرین لاپتہ ہیں۔
دراصل یہ سانحہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو درپیش ان خطرات کی یاد دہانی ہے جو بہتر زندگی کی تلاش میں بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس طرح یونان کا ساحل عبور کر کے یورپ جانے کی کوشش کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس سانحہ نے انسانی اسمگلنگ اور مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حرکت کے حوالے سے یورپین ممالک کے قوانین اور ان پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے ردعمل کے بارے میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ ناقدین نے یورپی یونین پر الزام لگایا ہے کہ وہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی مدد کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو اپنی سرحدوں کے پارانسانی اسمگلنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
پچھلی دہائی کے دوران، اسی طرح کی نقل مکانی کی آفات میں بے شمار جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کیونکہ افراد اور خاندان بہتر زندگی کے موقع کے لیے سب کچھ خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM)کے مطابق، 2022 میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے میں سمندری اور زمینی راستوں پر تارکین وطن کی 3,789 اموات ہوئیں۔ یہ 2017 کے بعد اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہے، جب کہ دوہزار سترہ میں 4,255 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ زیادہ تر اموات بحیرہ روم میں ہوئیں جہاں 2,605 تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ تارکین وطن کی اموات کے لیے دیگر اہم مقامات میں صحرائے اعظم یا صحارا (892 اموات) اور خلیج عدن (282 اموات) شامل ہیں۔
آئی او ایم نے 2022 میں اموات کی بڑی تعداد کو متعدد عوامل سے منسوب کیا ہے جن میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقے میں یورپ اور دیگر مقامات کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سمیت تارکین وطن کی طرف سے زیادہ خطرناک راستوں کا استعمال، جیسے صحرائے صحارا اور بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقے میں تلاش اور بچاؤ کے مناسب وسائل کی کمی شامل ہیں۔
یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار جبری نقل مکانی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور پناہ کے متلاشی افراد کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے عالمی اقدام کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
اگرچہ یونان میں کشتی کے سانحے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی صحیح تعداد کا ابھی تعین کیا جا رہا ہے، لیکن ایسے خطرناک سفر میں پاکستانی تارکین وطن کا ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ معاشی مشکلات، سیاسی عدم استحکام، اور علاقائی تنازعات نے بہت سے پاکستانیوں کو کسی اور جگہ استحکام اور خوشحالی کی امید میں خطرناک ہجرت کے راستوں پر جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ تاہم، سفر خود ہی اکثر غدار ثابت ہوتا ہے، اسمگلروں اور غیر محفوظ جہازوں کی وجہ سے زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
اعداد و شمار کے علاوہ یہ سانحہ ایک گہرا انسانی بحران ہے۔ ہر کھوئی ہوئی زندگی کے پیچھے ایک کہانی، ایک خواب، اور پیچھے رہ جانے والے پیارے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان سانحات کے انسانی پہلو کو یاد رکھنا، خاندانوں اور برادریوں میں پھیلنے والے درد اور غم کو پہچاننا ضروری ہے۔ اس اجتماعی نقصان کو عجلت کا احساس اور بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے عزم کو بڑھانا چاہئے جو لوگوں کو اس طرح کے خطرناک سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے، بین الاقوامی برادری کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر جبری نقل مکانی کو جنم دینے والے پیچیدہ مسائل کو حل کرے۔ اس میں غربت، تنازعات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا شامل ہے، جو اکثر افراد کو تحفظ اور مواقع کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید برآں، قانونی ہجرت کے ذرائع کو بہتر بنانے اور نقل مکانی کے دوران اور ان کی منزلوں پر تارکین وطن کو انسانی امداد اور مدد فراہم کرنے کی طرف کوششیں کی جانی چاہئیں۔
یونان کے ساحل پر پیش آنے والا یہ سانحہ انسانی اسمگلنگ اور بحران کی انسانی قیمت کی ایک افسوسناک یاد دہانی ہے۔ یونان کی کشتی کا سانحہ پہلی بار نہیں ہے گزشتہ کئی دہائیاں ایسے دلخراش واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکام اور ذمہ دار افراد چند دن کے بیانات کے بعد واپس سب اپنے معمول پر آجائے گا۔
یونان کی کشتی کے سانحے نے ایک بار پھر ہجرت کی انسانی قیمت اور جامع کارروائی کی فوری ضرورت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جب ہم جانوں کے ضیاع پر سوگ مناتے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، آئیے ہم ایک ایسی دنیا کے لیے کوشش کریں جہاں کوئی بھی بہتر زندگی کی تلاش میں خطرناک سفر کرنے پر مجبور نہ ہو۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم بنیادی وجوہات کو حل کریں، قانونی راستوں کو مضبوط کریں، اور ضرورت مندوں کے لیے ہمدردی کا ہاتھ بڑھا دیں۔ صرف بین الاقوامی تعاون اور انسانی وقار کے لیے حقیقی عزم کے ذریعے ہی ہم مزید سانحات کو روکنے اور ایک زیادہ منصفانہ اور جامع دنیا کی تعمیر کی امید کر سکتے ہیں۔
یونان کشتی سانحہ نہ صرف حکومت، پالیسی ساز اداروں، قانون نافذ کرنے والےاداروں اور حکامِ بالا بلکہ معاشرے اور ذمہ دار افراد کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کسی آگ میں جھونک رہے ہیں؟ خاندان کے اچھے مستقبل کے لیے بجائے نوجوانوں کو تعلیم وتربیت اور ہنر مند بنانے کے بجائے ان کو ایسے راستے دکھا کر زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں اور اس وقت مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!