کالم

8فروری انتخابات، گرین سگنل ابھی باقی ہے!!!

Published

on

ان  دنوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سیاست دیکھیں تولگتا ہے کہ ان سے بڑے سیاسی مخالفین کوئی نہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتی جماعتیں ایک دوسرے کی دوستی کا  بھرم بھرتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہو گیا کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نہ صرف تمام  قائدین کو بزرگ سمجھنے لگے ہیں بلکہ خود ان کی  جماعت سے ان کے اس بیان کو  ڈیفینڈ کرنے کی  آوازیں  کمزور ہورہی ہیں۔

7 اگست 2023 کو پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر بلاول نے زرداری اور نواز شریف دونوں کو پیغام دیا تھا کہ  جو طرز سیاست وہ متعین کر رہے ہیں اس پر عمل کرنا انکے اور مریم نواز کیلئے مشکلات پیدا کر دے گاان کے اس بیان پر نہ تو زرداری صاحب نے  جواب دیا اور نہ ہی ن لیگ سے  کوئی آواز آئی کچھ عرصہ خاموشی کے بعد آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی کو یہ  خواب دکھائے گئے کہ شاید وہ اس بار وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے امیدوارہیں توپیپلز پارٹی  ماضی کے زخم بھلا کر اسٹیبلشمنٹ  کو روبرو نعرے لگاتی ہوئی آگے آگئی مگر ن لیگ کی سیاسی  بصیرت اورپیپلزپارٹی کے  ماضی کا انقلابی کردار مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ان  پر بھروسہ کرنے کے بجائے نواز شریف کو تمام تر خامیوں کے باوجود زیادہ موزوں تصور کرنے لگی جس کا رنج یقینا پیپلز پارٹی کو موجودہ   پوزیشن پر لانے  کی بنیادی وجہ بنا۔

آج اگر بلاول لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت کر رہے  ہیں ، آج اگر بلوچستان کے امیدوار پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ کرن لیگ کی جھولی  میں گر رہے ہیں تو اس میں کمال ن لیگ کا نہیں ہےبلکہ مستقبل کی صف بندی کا ہے ،باپ پارٹی کا شیرازہ  تو بکھرنا  ہی تھا 20۔22 میں سے تقریبا آدھے ارکان پارٹی چھوڑ چکے ہیں  اور ن لیگ  کی ووٹ کو عزت دو کی  تدفین کے ساتھ الیکٹیبلز کا لالچ جماعت کے منشور کو چار چاند لگا رہا ہے مگر ابھی  مکمل اختتام  نہیں ہوا، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں یقینا پیپلزپارٹی اور ن لیگ آخری وقت تک  نمبر گیم خراب کرنے اور اپنے حق میں  کرنے کیلئے کوشاں رہیں گے لیکن اگر اس کے باوجود اگر اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ یہ پارٹیز کہیں چوک رہی ہیں تو 8 فروری کے انتخاب کا معاملہ لٹک جائے گا۔

اب تک کے آثاریہ کہہ  رہے ہیں کہ جماعتیں بادل نخواستہ الیکشن کیلئے تیار ہیں مگر اس  گارنٹی کے ساتھ کہ پی ٹی آئی کا راستہ بظاہر نہیں  مکمل روکا جائے۔لیکن   پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں  موجودگی بھی ایک بڑی مجبوری  ہے جسے برداشت کرنا پڑے گا اگر یہ مجبوری وزن میں زیادہ ہو گئی تو8 فروری کے انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ہوا میں معلق ہو جائیں گے۔

نگران  حکومت کے پچھلے  ہفتوں میں اس کی شبیہ دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود تمام تر قیاس آرائیوں  اورشبہات کے ساتھ  جماعتیں انتخابات میں جارہی ہیں،اسی کنفیوژن کی وجہ سے صحیح معنوں میں  کوئی جماعت انتخابی مہم میں  سنجیدہ نہیں ہے جب گرین سگنل ملا عوام پھر دیکھیں گے انتخابی  موحول کیسے سجتا ہےابھی تو پکچر باقی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version